July 10, 2019
by PharmaReviews
0 comments

برطانیہ میں میڈیکل کی 7 طالبات کو 150 سال بعد ڈگری تفویض

قدامت پرست برطانیہ میں خواتین کو اعلیٰ تعلیم کا حق دلوانے والی 7 طالبات کو یادگاری اعزازی ڈگری دی گئی (فوٹو : ٹویٹر)

لندن: برطانوی یونیورسٹی ایڈنبرا میں 150 سال بعد میڈیکل کی 7 آنجہانی طالبات کو اسناد دینے کی تقریب منعقد کی گئی۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ایڈنبرا یونیورسٹی میں 1869ء میں روایت شکنی کرتے ہوئے 7 خواتین نے پہلی بار یونیورسٹی میں داخلہ لے کر قدامت پسند برطانیہ کی متنازع ثقافت اور روایات کے خلاف بغاوت کی تھی جنہیں بالآخر 150 سال بعد اسناد جاری کردی گئیں۔

’ایڈنبرا سیون‘ کے نام سے شہرت پانے والی ساتوں طالبات اپنی ڈگریاں لینے کے لیے اب دنیا میں موجود نہیں اس لیے یونیورسٹی انتظامیہ نے موجودہ طالبات میں سے سات خوش نصیبوں کو نمائندگی کے لیے چنا اور اعزازی میڈل اور اسناد پیش کیں۔

ایڈنبرا سیون نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا تو برطانیہ کے مردوں کی حاکمیت والے معاشرے میں ہلچل مچ گئی، قدامت پسندوں نے طالبات کی راہ میں روڑے اٹکائے یہاں تک کہ مرد طلبا نے طالبات کے خلاف باقاعدہ محاذ کھڑا کردیا تھا۔
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہشمند برطانیہ کی ان اولین خواتین نے صنفی امتیاز کے خلاف مہم چلائی تھی جسے چارلس ڈارون جیسی ہستیوں کا مکمل تعاون حاصل تھا جس کے نتیجے میں 1877ء میں خواتین کو اعلیٰ تعلیم کی اجازت دینے کے لیے قانون سازی کی گئی۔

قانون سازی کے باوجود ایڈنبرا سیون کی مشکلات کم نہ ہوسکیں اور آخری سال امتحانی ہال میں مرد طالب علموں نے ان طالبات پر گندگی پھینک دی اور آئندہ دو دہائی تک ایڈنبرا یونیورسٹی میں کسی خواتین کا داخلہ ممنوع رہا بعد ازاں داخلے تو مل گئے لیکن کوئی بھی مرد ٹیچر طالبات کو پڑھانے کے لیے راضی نہ ہوا۔

دھیرے دھیرے ان خواتین کی جدوجہد بالآخر رنگ لے آئی اور خواتین کی تعلیم میں حائل سماجی رکاوٹیں ختم ہوگئیں اور معاشرے میں تعلیم یافتہ خواتین کو خاص اہمیت دی جانے لگی تاہم ایڈنبرا کی یہ 7 طالبات اپنی تعلیم مکمل نہیں کرسکی تھیں۔

قدامت پسند برطانوی معاشرے میں خواتین کو اعلیٰ تعلیم کی اجازت دلانے والی ان ساتوں خواتین مری اینڈرسن، ایملی بوویل، میٹلڈا چپلن، ہیلن ایوانز، صوفیا جیکس بلیک، ایڈٹھ پیچی اور ایزابیل تھورن کو یونیورسٹی کے مک ایون ہال میں ہونے والی خصوصی تقریب میں میڈیسن کی اعزازی بیچلر ڈگری سے نوازا گیا۔

ان سات خواتین کی ڈگریوں کو ایڈنبرا کی موجودہ سب سے قابل اور لائق طالبات نے وصول کیا، یونیورسٹی میں ایڈنبرا سیون کے حوالے سے یادگار بھی قائم کی گئی ہیں جس میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے خواتین کو درپیش مشکلات اور رکاوٹوں کو اجاگر کیا گیا تھا۔

May 21, 2019
by PharmaReviews
0 comments

World Continuing Education Alliance

world_blue

The World Continuing Education Alliance.

wcea_logo

The WCEA specializes in providing accredited Continuing Education (CE) courses from leading educators to organizations, helping learners meet their CPD requirements across a number of sectors, including nursing, medical, pharmacy, veterinary, eyecare and dental, delivered through our leading LMS.

Find out how the WCEA is able to provide the depth & breadth of courses from leading educators, meeting your educational needs at an incredibly low price!

maxresdefault

May 12, 2019
by PharmaReviews
0 comments

نیویارک: ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ فطرت کے کارخانے میں کوئی شے بے کار نہیں یہاں تک خطرناک جانور بچھو کا زہر بھی اب ایسے مریضوں کی جان بچاسکتا ہے جو دماغ کے سرطان میں مبتلا ہے۔ جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بچھو کا زہر دماغی رسولیوں کی شناخت اور سرجری میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

اسی بنا پر ایک دماغی تصویر کشی کی ایک نئی ٹیکنالوجی وضع کی گئی ہے جس کے ذریعے سرجن حضرات جراحی کے دوران کینسر سے متاثرہ رسولیاں کو بہتر انداز میں شناخت کرکے اسے نکال باہر کرسکتے ہیں۔ ابتدائی تجربات میں یہ عمل بہت امید افزا ثابت ہوا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ بچھو کے زہر میں خاص پیپٹائڈ پائے جاتے ہیں جو دماغی رسولیوں سے چپک جاتے ہیں اور جب انہیں انفراریڈ کیمرے سے دیکھا جائے تو وہ ٹیومر کی جانب اشارہ کرتےہیں جسے باآسانی شناخت کرکے نکالا جاسکتا ہے۔

دماغ میں کینسر کی جان لیوا رسولیوں کے امراض کو گلائیوماز کہا جاتا ہے جو ریڈیو تھراپی اور کیمو تھراپی کو بے اثر بنادیتےہیں۔ اکثر یہ دماغ کے وسیع حصے میں موجود ہوتے ہیں اور ان حصوں کو سرجری کے ذریعے الگ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

کینسر کی واضح تصویر لینے والی اس ٹیکنالوجی میں ایک مرکب بہت اہم ہے جسے ٹوزلرائسٹائڈ یا بی ایل زیڈ 100 کا نام دیا گیا ہے۔ یہ مرکب بچھو کے قدرتی زہر کا مصنوعی ورژن ہے۔ یہ قدرتی طور پر کینسر کے خلیے سے جڑ جاتا ہے اور اس پر انفراریڈ روشنی ڈالی جائے تو اسے دیگر کے مقابلے میں باآسانی شناخت کیا جاسکتا ہے۔

اگلے مرحلے میں اسے 17 مریضوں پر آزمایا گیا اور اس میں بہت کامیابی ہوئی ہے۔ ان مریضوں کی دماغی رسولیاں بالکل صاف دکھائی دیں۔ اس سے قبل دماغی رسولیوں کو دیکھنے والے کیمرے اور آلات بہت مہنگے اور وزنی تھے لیکن اب امید ہے کہ نئی تکنیک سے یہ کیمرے سمٹ کر چھوٹے ہوجائیں گے۔

اب ماہرین اسے مزید مریضوں پر آزما کر اس کی افادیت کو نوٹ کررہے ہیں۔ دیگرماہرین اور ڈاکٹروں نے اسے دماغی سرجری میں ایک نمایاں سنگِ میل قرار دیا ہے جس میں بچھو کے زہر میں موجود پیپٹائڈز سے مدد لی گئی ہے۔

May 12, 2019
by PharmaReviews
0 comments

بالٹی مور: کثیرنسلی اور وسیع آبادی پر کئے گئے ایک مطالعے سے انکشاف ہوا ہے کہ اگر کوئی جسمانی طور پر فٹ ہے اور باقاعدہ ورزش کرتا ہے تووہ کئی اقسام کے سرطانی حملوں سے بچ سکتا ہے۔

باقاعدہ ورزش اور فٹنس کئی اقسام کے کینسر سے بچاتی ہے۔ فوٹو: فائل

ڈیٹرائٹ کے ہینری فورڈ ہیلتھ سسٹم اور بالٹی مور کے جان ہاپکنز اسکول آف میڈیسن نے جسمانی طور پر بہترین اور فٹ افراد اور ان میں پھیپھڑوں اور آنتوں کے سرطان کے درمیان تحقیق کرکے بتایا ہےکہ ایسے لوگوں میں اول تو ان کینسر کا خطرہ کم ہوتا ہے اور دوم لاحق ہونے کی صورت میں زندہ رہنے کا امکان دیگر کے مقابلے میں بہتر ہوتا ہے۔

اس سروے میں 49 ہزار سے زائد مریضوں کا ڈیٹا حاصل کیا گیا جو 1991 سے 2009 کے درمیان ورزش، اسٹریس اور فٹنس کے کئی ٹیسٹ سے گزرے تھے۔ اس گروپ میں 46 فیصد خواتین ، 64 فیصد سفید فام، 29 فیصد سیاہ فام اور ایک فیصد ہسپانوی شامل تھے۔

سروے سے وابستہ کینسر کی ماہر ڈاکٹر کیتھرین مارشل نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مطالعہ ہے جس میں سفید فام کے علاوہ کثرنسلی افراد کو شامل کیا گیا ہے۔ اگرچہ ورزش اور دل کے امراض میں کمی کے درمیان گہرا تعلق دریافت ہوچکا ہے لیکن اب تک فٹنس اور ورزش اور کینسر کے درمیان تعلق دریافت نہیں کیا گیا تھا۔

مطالعے میں شریک افراد کی عمریں 40 سے 70 برس تھیں اور اوسطاً ساڑھے سات سال تک ان کی ورزشی عادات مثلاً کارڈیو رسپائرٹری ورزش اور ایم ای ٹی ورزشوں کو نوٹ کیا گیا ۔ اس کے بعد ماہرین نے ان میں سرطان سے متاثرہونے کا رحجان نوٹ کیا۔

سروے سے معلوم ہوا کہ انتہائی فٹ اور ورزش کرنے والے افراد میں پھیپھڑے کا کینسر لاحق ہونے کا خطرہ 77 فیصد اور آنتوں کے کینسر کا خدشہ 61 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔ اس کےعلاوہ تندرست اور فٹ لوگ اگر کینسر کی ان دو اقسام کے شکار ہوجائیں تب بھی ان میں بحالی اور زندہ رہنے کا امکان بہت روشن ہوتا ہے۔

May 12, 2019
by PharmaReviews
0 comments

نیویارک: جان ہاپکنزیونیورسٹی اور دیگر اداروں کے ماہرین نے ایک طویل سروے کے بعد کہا ہے کہ شاخ گوبھی (بروکولی) دماغ میں پائے جانے حساس کیمیکل کے پورے نظام کو متوازن رکھتےہوئے کئی اقسام کے امراض کو روکتی ہے جن میں شیزوفرینیا اوردیگر دماغی بیماریاں بھی شامل ہیں۔

شاخ گوبھی دماغی کیمائی ترکیب کو متوازن کرکے کئی امراض سے محفوظ رکھتی ہے جن میں شیزوفرینیا بھی شامل ہے۔ فوٹو: فائل

بروکولی یا شاخ گوبھی اب پاکستان میں بھی دستیاب ہے جس میں ایک کیمیکل سلفورافین موجود ہوتا ہے جو دماغ کو قوت دیتا ہے اور کیمیائی اجزا کو منظم رکھتا ہے۔

جان ہاپکنز یونیورسٹی کے پروفیسر آکیرا ساوا کہتے ہیں کہ سلفورافین ایسے لوگوں کے لیے بہترین سپلیمنٹ ثابت ہوسکتا ہے جو شیزوفرینیا کے دھانے پر ہیں یا اس میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ شاخ گوبھی کا یہ اہم جزو انہیں اس ہولناک مرض سے محفوظ رکھتا ہے۔
شیزوفرینیا کے مریض، وہم، دھوکے، پریشان خیالی، عجیب رویے اور ازخود باتیں کرنے جیسے امراض کے شکار ہوتے ہیں۔ یہ کیفیت خود مریض اور اس کے اہلِ خانہ کے لیے بہت اذیت ناک ہوتی ہے۔

جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں شیزوفرینیا کے 81 مریض اور 91 صحت مند افراد کو شامل کیا جن کی اوسط عمر 22 سال تھی اور ان میں 58 فیصد مرد تھے۔ ان کے دماغ کا معائنہ کرتے ہوئے مقناطیس اور میگنیٹک ریزوننس اسپیکٹروسکوپی (ایم ایس آر) کی جدید مشینوں کو استعمال کیا گیا۔

شیزوفرینیا کے مریضوں کے دماغ میں ایک مضر کیمیکل’ گلوٹامیٹ‘ دیگر کے تناسب سے 4 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔ یہ کیمیکل دماغی نیورون کے درمیان سگنل بھیجنے اور وصول کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ مریضوں میں ایک کیمیکل گلوٹاتھائیون بھی کم ہوجاتا ہے۔

اگلے مرحلے میں انسانوں اور چوہوں کو سلفورافین کے کیپسول دئیے گئے تو انسانوں نے گیس اور بدہضمی کی شکایت کی۔ لیکن حیرت انگیز طور پر چوہوں اور انسانوں کے دماغ میں گلوٹا تھائیون اور گلوٹامیٹ کی مقدار بڑھنے لگی اور صرف چند ہفتوں تک اس میں زبردست اضافہ ہوا۔ جہاں تک مریضوں کا تعلق تھا ان میں شیزوفرینیا کے دورے کی شرح بھی کم دیکھی گئی۔

May 12, 2019
by PharmaReviews
0 comments

آسٹریلیا: سن اسکرین اور سن بلاک میں پائے جانے والے چار مختلف کیمیکل انسانی خون میں پائے گئے ہیں اور اس کے بعد ماہرین نے اس پر مزید تحقیق پر زور دیا ہے۔

ایک سروے میں سن بلاک، کریم اور اسپرے کے چاروں اجزا کو جلد سے گزر کر خون میں شامل ہوتے دیکھا ہے۔ فوٹو: فائل

اسی بنا پر سرطان اور دیگر امراض کے ماہرین نے زور دیا ہے کہ اب تک ان کیمیکل کے انسانوں پر اثرات واضح نہیں لیکن اس مقام پر لوگوں کو سن بلاک اور دھوپ روکنے والی دیگر کریموں کا استعمال ترک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ سورج کی مضر شعاعوں سے بچنا بہت ضروری ہے۔ تاہم انہوں نے اس کی سمیت (ٹاکسی سِٹی) پر مزید زور دیا ہے۔

اس مطالعے میں 24 افراد کو چار گروہوں میں تقسیم کیا گیا۔ ہر گروہ کو چار عدد مشہور سن اسکرین فارمولہ استعمال کرائے گئے جن میں ایک مشہورلوشن، ایک کریم اور دو مختلف اسپرے دئیے گئے۔ ہر گروپ نے چار روز تک، دن میں چار مرتبہ جسم کے 75 فیصد حصے پر سن اسکرین لگائے۔

اس کےبعد تمام شرکا کے خون کے ٹیسٹ کرائے گئے۔ ماہرین نے سن اسکرین میں موجود چار اہم اجزا ایووبینزون، آکسی بینزون، اوکٹو کرائلین، اور ایکیمسیول کے لیے خون کے ٹیسٹ وضع کیے۔ صرف ایک دن کے استعمال کے بعد ہی تمام شرکا کے خون میں چاروں اجزا پائے گئے جن کی اوسط مقدار0.5 نینوگرام فی ملی میٹر تھی۔

تاہم خون میں ان اجزا کی اتنی کم مقدار کسی مقررہ حد یا اس سے وابستہ خطرے کو ظاہر نہیں کرتی۔ اگر اس پیمانے سے بہت زیادہ مقدار ہو تب ہی ماہرین کے لیے کسی پریشانی کی وجہ بن سکتی ہے۔ ماہرین کا اصرار ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سن اسکرین غیرمحفوظ ہیں۔

اس مطالعے پر تنقید کرتے ہوئے کینسر کونسل آسٹریلیا کے سائنسداں ٹیری سلے ون کہتے ہیں کہ مطالعے میں شریک تمام شرکا نے لوشن، کریم اور سن اسکرین کی بہت زیادہ مقدار استعمال کی تھی۔ ورنہ عام طور پراس کی ایک چوتھائی مقدار استعمال کی جاتی ہے۔

ایک اور ماہر نے کہا ہے کہ اگر اس خبر کے بعد لوگ سن اسکرین اور لوشن سے بیزار ہوجائیں تو یہ بہت برا ہوگا کیونکہ سن بلاک بھی بہت سے بیماریوں کو روکتےہیں جن میں خود جلد کا سرطان بھی شامل ہے۔ سورج کی روشنی میں موجود مضر بالائےبنفشی (الٹروائلٹ) شعاعیں جلد کے سرطان کی وجہ بنتی ہے اور سن بلاک انہیں روکنے میں مدد دیتے ہیں۔

May 12, 2019
by PharmaReviews
0 comments

کاگو: ایک اہم دریافت کے بعد ماہرین نے کئی برس سے زیرِ بحث ایک معمہ حل کیا ہے جس کے تحت میتھین جذب کرنے والے اور اسے ایندھن میں بدلنے والے بیکٹیریا کا یہ اہم راز فاش ہوگیا ہے۔

میتھین کو میتھانول میں بدلنے والے بیکٹیریا کی اس صلاحیت کا راز دریافت کرلیا ہے جسے سے ماحول دوست ایندھن کی راہ ہموار ہوگی۔ فوٹو: فائل

قدرت کے کارخانے میں خاص بیکٹیریا پائے جاتے ہیں جنہیں ’میتھونوٹروفِک‘ بیکٹیریا کہا جاتا ہے اور وہ میتھین گیس کھاتے ہیں اور اس کے بدلے میتھانول ایندھن بناتے ہیں۔

نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں کئی علوم اور شعبوں سے تعلق رکھنے والے مختلف ماہرین نے کہا ہے کہ ایسے بیکٹیریا میں ایک خاص قسم کا ’اینزائم یا خامرہ‘ پورے عمل کو بڑھا کر میتھین کو میتھانول میں تبدیل کرتا ہے۔ اس عمل میں تانبے (کاپر) کا ایک آئن استعمال ہوتا ہے۔
ماحولیاتی لحاظ سے یہ ایک اہم خبر ہے کیونکہ اس سے ایسے عمل انگیز بنانا ممکن ہوں گے جو انتہائی ماحول دشمن گیس میتھین کو ہضم کرکے اسے قابلِ استعمال میتھانول میں بدلیں گے اور اس سے خود ہماری توانائی کی ضروریات بھی پوری ہوسکیں گی۔

شکاگو میں واقع نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ایمی روزن زوائگ نے بتایا کہ ’ عمل انگیز (کیٹے لسٹ) کی نشاندہی کئی دہائیوں سے ایک معمہ بنی ہوئی تھی۔ اب ہماری تحقیقات سے میتھین سے میتھانول بنانے والے بیکٹیریا کا راز معلوم ہوگیا ہے۔ اس میں تانبے کا عمل دخل ہے جس سے پتا چلا ہے کہ آخر کسطرح قدرت میتھین کو میتھانول بناتی ہے۔‘

نیچر نامی جرنل میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میتھینوٹروفک بیکٹیریا ایک وار میں دو کام کرتے ہیں۔ ایک جانب تو وہ ماحول دشمن گرین ہاؤس گیسوں میں سرِفہرست میتھین کو جذب کرتے ہیں اور اسے ماحول دشمن ایندھن میں بدلتے ہیں۔ اگر یہ طریقہ قابلِ عمل ہوجاتا ہے تو دنیا کو صاف ایندھن کی تیاری کا ایک اور طریقہ مل جائے گا۔

مروجہ صنعتی طریقوں میں میتھین سے میتھانول بنانے کے لیے بہت بلند درجہ حرارت درکار ہوتا ہے جو 1300 درجے سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔ اگر ہم بیکٹیریا والے نظام کی نقل بنانے میں کامیاب ہوجاتےہیں تو ہمارے ہاتھ میں آسان توانائی کا ایک نیا طریقہ بھی آجائے گا۔

May 12, 2019
by PharmaReviews
0 comments

جب بھی رمضان المبارک کا مہینہ آئے، تو دنیا بھر میں مسلمان ذوق و شوق سے روزے رکھتے ہیں۔ دن بھر کھانے، پانی، جھوٹ، غصّہ، گالم گلوچ وغیرہ سے پرہیز ہوتا ہے۔

Image result for ramadan 2019

 

روزہ رکھنا محض مذہبی فریضہ نہیں یہ مسلمان کو جسمانی و روحانی فوائد بھی عطا کرتا ہے۔ روزہ خصوصاً انسان کو تندرستی دینے کی ایسی زبردست حکمت عملی ہے جسے اللہ تعالی نے بطور تحفہ اپنے بندوں کو عطا فرمایا۔ جدید طبی سائنس اب اسی حکمت عملی میں پوشیدہ سائنسی حقائق دریافت کررہی ہے۔

اسی تحقیق کا نتیجہ ہے، یورپ اور امریکا کے کروڑوں لوگوں میں فاقہ کشی کرنے کے مختلف طریقے مقبول ٹرینڈ یا رجحان بن چکے۔اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل مسلمانان عالم کو رمضان المبارک کا تحفہ عطا کیا تھا۔ تب طبی سائنس گھٹنوں کے بل چل رہی تھی۔ مگر خدائے برتر و بزرگ کو علم تھا کہ روزے کے عمل میں انسان کے لیے جسمانی و روحانی فوائد پوشیدہ ہیں۔ اسی باعث روزہ رکھنا ایمان کا حصہ بنا دیا گیا ۔
یہ خدائے پاک کی بنی نوع انسان سے محبت اور اس کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جدید طبی سائنس چودہ سو برس بعد اس حقانیت سے واقف ہورہی ہے۔عام مشاہدہ ہے کہ اگر طبی طور پہ درست طریقے سے روزے رکھے جائیں تو محض تیس دن میں انسان صحت کی دولت پا لیتا ہے ۔وزن کم ہوتا ہے،بلڈ پریشر میں کمی آتی ہے اور انسان زیادہ چاق وچوبند ہو جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ معجزہ جنم لینے کی وجوہ کیا ہیں؟بنیادی وجہ یہ ہے کہ روزے رکھنے کا عمل انسانی جسم میں نہایت چھوٹی یعنی خلویاتی سطح پر ایسی حیرت انگیز تبدیلیاں لاتا ہے جو انسان کو تندرستی کی راہ پہ گامزن کر دیتی ہیں۔طبی سائنس سے منسلک ماہرین نے پچھلے چند برس کے دوران خلویاتی سطح پر تحقیق و تجربات کرنے سے ہی جانا ہے کہ روزے رکھ کر دن بھر بھوکا پیاسا رہنے سے انسان کی صحت کیونکر بہتر ہوتی ہے۔ اسی لیے دنیائے مغرب میں کروڑوں مرد و زن مسلمانوں کی دیکھا دیکھی سال کے مخصوص مہینے یا مہینوں کے مخصوص دنوں میں فاقہ کرنے لگے ہیں۔

امریکا اور یورپی ممالک میں ڈاکٹر فاقہ کشی کرنے کے اپنے خصوصی غذائی پروگرام ترتیب دے چکے جنہیں مقبولیت مل رہی ہے۔ ان کی بدولت ڈاکٹر سالانہ کروڑوں ڈالر کمارہے ہیں۔ اسی طرح کئی کمپنیاں فاقہ کشی سے متعلق مخصوص غذائیں تیار کررہی ہیں۔ دنیائے مغرب میں فاقہ کشی کی صنعت اربوں ڈالر مالیت کی ہوچکی۔طبی سائنس نے پچھلے چند برس کے دوران روزہ رکھنے (یا دن بھر فاقہ کرنے) کے جو فوائد دریافت کیے ان کا بیان درج ذیل ہے۔

چربی کا خاتمہ

امریکا کی یونیورسٹی آف فلوریڈا میں تین ماہرین غذائیات… ڈگلس بین ‘ مارٹن ویگمن اور مائیکل گاؤ پچھلے دو برس سے اس امر پر تحقیق کر رہے ہیں کہ جب انسان کئی دن کھانے پینے سے دور رہتا اور فاقے کرتا ہے تو انسانی جسم پر کس قسم کے اثرات پیدا ہوتے ہیں؟رمضان المبارک کے مہینے سے متاثر ہو کر ہی ان کی تحقیق کا آغاز ہوا۔ان ماہرین غذائیات کا کہنا ہے کہ قدیم انسان بھی فاقے کرتے تھے۔ جب ان کے علاقے میں غذا کثرت سے ہوتی، تو وہ خوب کھانا کھاتے۔ مگر جب غذا نایاب ہو جاتی ‘ تو قدیم انسان کئی دن فاقے کرتے۔ یہی وجہ ہے‘ انسانی بدن کے خلیے بھوک اور قحط کا عمدگی سے مقابلہ کر لیتے ہیں۔

کئی ماہرین کا خیال ہے کہ روزے رکھنے سے جب بدن میں شکرِ خون (بلڈ شوگر) یا گلوکوز کی مقدار کم ہو جائے‘ تو اس عمل سے انسان کو طبی فوائد ملتے ہیں۔ یاد رہے‘ جب ہم کھانا کھائیں‘ تو ہمارا جسم غذا سے شکر حاصل کرتا ہے۔ یہ شکر بھی جسم کا ایندھن ہے۔ خون ہر عضو تک یہ ایندھن پہنچانے کا ذمے دار ہے۔انسانی جسم میں جگر‘ پتہ اور آنتیں شکر کی مقدار متوازن رکھتی ہے۔ اگر زیادہ کھانا کھانے سے جسم میں شکر کی مقدار بڑھ جائے‘ تو پتہ ایک ہارمون ‘ انسولین خارج کرتا ہے۔ یہ ہارمون زائد شکر کو گلائیکو جن (glycogen) مادے کی صورت جگر میں جمع کر دیتا ہے۔

انسانی جسم میں شکر کی مقدار کم ہو جائے تو جگر ایک ہارمون ‘ گلوکوجن (glucagon) خارج کرتا ہے۔ یہ ہارمون جسم میں جمع گلائیکو جن کو دوبارہ شکر میں تبدیل کر کے اسے خون میں چھوڑ دیتا ہے تاکہ انسانی بدن کو روزمرہ کام کاج کرنے کی خاطر توانائی ملتی رہے۔ اگر جگر میں جمع گلائیکوجن ختم ہونے لگے‘ تو وہ اس کی بچی کچھی مقدار بچا لیتا ہے۔ یہ گلائیکوجن اب شکر کی صورت اہم انسانی اعضا مثلاً دماغ ،دل اور گردوں کو ایندھن یا توانائی فراہم کرے گا۔جگر پھر بقیہ انسانی اعضا کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے انسان کے بدن میں موجود چربی کو ’’کیٹونیس‘‘ (ketones) کیمیائی مادوں میں بدل دیتا ہے۔ یہ کیٹونیس مادے بقیہ اعضا کے خلیوں کو توانائی فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ اپنا کام درست طریقے سے انجام دے سکیں۔

ایک نارمل انسان کے بدن کو کیٹونیس مادہ نقصان نہیں پہنچاتا ۔ لیکن انسان ذیابیطس میں مبتلا ہے تو خون میں کیٹونیس مادے کی زیادتی اسے کئی مسائل میں گرفتار کر وا سکتی ہے۔ مثلاًقے آنا‘ سانس لینے میں مشکل ‘ دل تیزی سے دھڑکنا‘ گھبراہٹ‘ وغیرہ۔ اگر فوری علاج نہ ہو تو انسان مر بھی سکتا ہے ۔ اسی لیے ذیابیطس کا شکار مریضوں کو دیکھ بھال کر روزہ رکھنا چاہیے۔بہر حال نارمل انسان میں چربی ختم ہونے سے اسے سمارٹ اور تندرست بننے میں مدد ملتی ہے۔

موٹاپے کا شکار ذیابیطس میں مبتلا مرد و زن بھی روزے رکھ کر چربی سے نجات پا سکتے ہیں۔ لیکن ضروری ہے کہ وہ اپنے خون میں کیٹونیس مادہ بڑھنے نہ دیں اور اس کی مقدار اعتدال میں رکھیں۔وزن میں کمی دراصل طوالت عمر کی کنجی اور بڑھاپا روک حکمت عملی ہے۔ جانوروں اور انسانوں پر کیے گئے طبی تجربات سے ثابت ہو چکا کہ کم وزن رکھنے والے جان دار فربہ جانداروں کی نسبت زیادہ عرصے زندہ رہتے ہیں۔

مضر صحت آزاد اصلیے

انسان اربوں خلیوں کا مجموعہ ہے۔ یہی خلیے شکر کے ذریعے جسم کو درکار توانائی پیدا کرتے ہیں۔ اس عمل کے دوران ایک خطرناک ضمنی پیداوار (بائی پروڈکٹ ) ’’آزاد اصلیے‘‘(free radicals) بھی جنم لیتی ہے۔ یہ ایسے سالمات (مالیکیول) ہیں جن میں الیکٹرون نہیں ہوتا لہذا وہ شتر بے مہار غنڈے بن جاتے ہیں ۔وہ خلیوں پر حملے کر کے ان کا الیکٹرون چراتے اور انھیں ناکارہ بناتے ہیں۔قدرت الٰہی نے مگر آزاد اصلیے ختم کرنے کی خاطر انسان سمیت تمام جانداروں میں ’’ضد تکسیدی مادے‘‘ (antioxidants) پیدا کر دیئے ۔یہ مادے مسلسل آزاد اصلیوں کو الیکٹرون دے کر انھیں غیر مضر سالمات یا شرفا میں بدلتے رہتے ہیں۔ یوں انسانی جسم میں آزاد اصلیوں کی تعداد بڑھنے نہیں پاتی اور انسان تندرست رہتا ہے۔

انسان مگر مضر صحت غذا کھائے‘ تمباکو نوشی کرے‘ کیڑے مار ادویہ سے لت پت کھانے ہڑپ کرے‘ تو یہ اشیا جسم میں آزاد اصلیے زیادہ تعداد میں پیدا کرتی ہیں جنھیں ضد تکسیدی مادے ختم نہیں کر پاتے۔ چنانچہ آزاد صلیے پھر خلیوں پر حملے کر کے انسان کو موذی امراض مثلا کینسر‘ امراض قلب ‘ ذیابیطس ‘ ہائی بلڈ پریشر ا ور دیگر بیماریوں کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں۔ یہی بیماریاں پھر انسان کو وقت سے پہلے بوڑھا کر تیں اور آخر کار اسے قبر میں پہنچا دیتی ہیں۔ہر خلیے کا ایک مخصوص حصہ شکر سے توانائی بناتا ہے۔ یہ حصہ ’’مائٹوچونڈریا‘‘ (mitochondria) کہلاتا ہے جسے آپ خلیے کا بجلی گھر سمجھ لیجیے۔سائنس داں جان چکے کہ جب مائٹو چونڈریا میں کوئی نقص پیدا ہو تو خلیہ زیادہ آزاد اصلیے بنانے لگتا ہے۔ جدید طبی سائنس نے اسی مائٹوچونڈریا کے حوالے سے روزے رکھنے کا ایک بہت بڑا فائدہ دریافت کیا ہے۔

مائٹوچونڈریا ختم ہوتے ہیں

انسان جب ماہ رمضان میں متواتر روزے رکھے تو خلیوں کو دن بھر وافر شکر نہیں ملتی۔ تب انسانی خلیوں کو چربی اور انسانی جسم میں محفوظ دیگر غذائی مادے استعمال کر کے توانائی بنانا پڑتی ہے۔اس حالت میں خلیے مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے خراب مائٹوچونڈریا سے نجات پا کر نئے تشکیل دے ڈالیں ۔ یوں ماہ رمضان کے دوران جو انسان باقاعدگی سے روزے رکھے اور صحت بخش غذا کھائے، اس کے لاکھوں کروڑوں خلیے اپنے ناقص مائٹوچونڈریا ختم کر ڈالتے ہیں۔یہ روزوں کا بہت بڑا طبی فائدہ ہے جو جدید سائنسی تحقیق سے سامنے آیا۔ وجہ یہ کہ روزے دار اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کر کے اپنے خراب مائٹو چونڈریا سے چھٹکارا پا لیتا ہے۔

اس طرح روزے دار کے جسم میں آزاد اصلیوں کی تعداد مسلسل کم ہونے لگتی ہے۔ یوں وہ صحت و تندرستی کے سفر پر گامزن ہو جاتا ہے۔ آزاد اصلیے کم ہونے سے اکثر اوقات موذی بیماریوں کی شدت بھی گھٹ جاتی ہے اور انسان افاقہ محسوس کرتا ہے۔ اس عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ آزاد اصلیے گھٹنے سے روزے دار کی عمر بڑھ جاتی ہے۔گویا روزے رکھنا عمر میں اضافے کا ایک آسمانی تحفہ اور سہل ذریعہ ہے۔

یاد رہے، جب انسانی بدن میں آزاد اصلیوں کی تعداد بڑھ جائے، تو یہ حالت سائنسی اصطلاح میں ’’آکسیڈیٹوسٹریس‘‘ (oxidative stress) یا تکسیدی دباؤکہلاتی ہے۔ یہ انسانی صحت کے لیے خطرناک حالت ہے۔ اس کیفیت میں میں انسان اندرونی سورش (inflammation) کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ حالت پھر خلیوں، پروٹین مادوں اور ڈی این اے کو نقصان پہنچاتی ہے۔اسی نقصان کے باعث موزی امراض چمٹ جانے اور اعضا کی شکست وریخت سے انسان بوڑھا ہونے لگتا ہے۔

یہ بات مگر دلچسپ ہے کہ جب ہم ورزش یا محنت مشقت والا کام انجام دیں، تو تب بھی بڑی تعداد میں آزاد اصیلے جنم لیتے ہیں۔ یہ سرگرمی بھی ہمارے بدن میںتکسیدی دباؤ بڑھا دیتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی کاریگری کا کرشمہ دیکھیے کہ ورزش سے جنم لینے والا یہ دباؤ انسانی جسم کے لیے نقصان دہ نہیں بلکہ مفید ہے۔یہ ہماری بافتوں (ٹشوز) کی نشوونما کرتا اور ہمارے بدن کے محافظوں، ضد تکسیدی مادوں کو جنم دیتا ہے۔ تاہم یہ دباؤ مختصر وقت تک ہی رہتا اور پھر ختم ہوجاتا ہے۔ اگر یہ طویل عرصہ رہے تبھی انسانی جسم کو نقصان پہنچاتا ہے۔

جسمانی چربی کو جانیے

اس موقع پر چربی کا بھی تذکرہ ہوجائے۔ چربی کی مختلف اقسام ہیں مثلاً سیچورٹیڈ، ٹرانس فیٹس، مونو سیچورٹیڈ اور پولی ان سیچورٹیڈ۔ عام خیال ہے کہ چربی انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے۔ مگر یہ خطرناک اس وقت بنتی ہے جب انسان روزانہ کثیر مقدار میں چربی سے لیس اشیا کھانے لگے۔حقیقت یہ ہے کہ انسان کو روزانہ 40 تا 70 گرام چربی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی تندرستی برقرار رکھ سکے۔ وجہ یہ کہ انسانی جسم میں چربی توانائی کے ’’بیک اپ‘‘ یا محفوظ ایندھن کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمارے جسم کا بنیادی ایندھن نشاستہ (کاربوہائیڈریٹ) ہے جس سے کہ شکر بنتی ہے۔ مگر جب وافر شکر میسر نہ ہو تو جیسا کہ بتایا گیا، انسانی جسم چربی کو بطور ایندھن استعمال کرتا ہے۔ انسانی جسم نشاستے اور چربی کے علاوہ پروٹین سے بھی توانائی پاتا ہے۔ یہ تینوں غذائی مادے انسان کے بنیادی ذرائع ایندھن ہیں۔

درج بالا تینوں ذرائع ایندھن میں چربی ہی سب سے زیادہ کیلوریز یا حرارے رکھتی ہے۔ نشاستے اور پروٹین کے ہر ایک گرام میں 4 حرارے ہوتے ہیں جبکہ چربی کا ایک گرام 9 حرارے رکھتا ہے۔ اسی لیے انسان کی کوشش ہونی چاہیے کہ روزانہ اپنے حراروں کے کوٹے کا 25 تا 35 فیصد حصہ ہی چربی سے پورا کرے۔ زیادہ چربی کھانے سے صحت کو نقصان ہی پہنچے گا۔ وٹامن اے، ڈی، ای اور کے اسی وقت انسانی جسم میں جذب ہوتے ہیں جب ہمارے بدن میں چربی کی مطلوبہ مقدار موجود ہو۔ یہ وٹامن ہماری تندرستی کے ضامن ہیں۔ مثلاً وٹامن اے ہماری آنکھیں تندرست رکھتا اور بصارت تیز کرتا ہے۔ وٹامن ڈی جسم میں کیلشیم جذب کرکے ہمارے ہڈیاں مضبوط بناتا ہے۔

وٹامن ای آزاد اصیلے ختم کرنے میں جسم کی مدد کرتا اور یوں خلیوں کو تحفظ دیتا ہے۔ وٹامن کے خون میں لوتھڑے نہیں بننے دیتا۔ غرض انسانی جسم میں چربی کی معقول مقدار نہ ہو، تو انسان ان تمام اہم وٹامن سے محروم ہوکر بیمار پڑنے لگتا ہے۔مزید براں چربی ہماری جلد کے خلیوں میں جمع ہوکر ہمارے جسم کا درجہ حرارت بھی متوازن رکھتی ہے۔ نیز ہمارے اہم جسمانی اعضا کے گرد بھی چربی پائی جاتی ہے۔ یہ چربی انہیں صدمات سے بچاتی ہے۔

یہ واضح رہے کہ ماہرین غذائیات چربی کی دو اقسام، مونو سیچورٹیڈ اور پولی ان سیچورٹیڈ کو انسانی صحت کے لیے مفید قرار دیتے ہیں جبکہ سیچورٹیڈ اور سٹرائس فیٹس کی اقسام نقصان دہ تصّور ہوتی ہیں۔ لہٰذا انسان کوشش کرے کہ چربی کی مفید اقسام رکھنے والی غذائیں ہی تناول کرے۔ خاص طر پر رمضان المبارک کے دوران روزے دار چربی والی غذائیںاعتدال سے کھائے تاکہ اس بابرکت مہینے کے طبی فوائد بھرپور انداز میں حاصل کرسکے۔ مونو سیچورٹیڈ اور پولی ان سیچورٹیڈ چربی یا چکنائی نباتی (ویجٹیبل) تیل، مغزیات اور سرد پانی کی مچھلیوں مثلاً ٹونا اور سالمن میں ملتی ہے جبکہ مضر صحت چربی سرخ گوشت، عام مچھلیوں اور ڈیری مصنوعات میں ملتی ہے۔ لہٰذا یہ غذائیں معتدل مقدار میں کھائیے۔ انسانی جسم میں مضر صحت چربی کی زیادتی انسان کو امراض قلب اور فالج میں مبتلا کرسکتی ہے۔

اندھا دھند پیٹ نہ بھرو

روزمّرہ غذا میں نشاستے کی زیادتی بھی نقصان دہ ہے۔ پاکستان اور بھارت میں زیادہ تر لوگ روٹی یا چاول کھا کر پیٹ بھرتے ہیں مگر ان غذاؤں کے باعث انسانی جسم میں شکر بکثرت بنتی ہے۔ یہ شکر پھر خلیوں کو ہر وقت کام میں مصروف رکھتی اور انہیں وقت سے پہلے بوڑھا کردیتی ہے۔ اسی خرابی سے انسان بھی جلد ضعیف ہوکر موت کو گلے لگالیتا ہے۔اسی لیے ماہرین غذائیت اب مردوزن کو مشورہ دیتے ہیں کہ روزانہ اپنے حراروں کی مطلوبہ مقدار کا 50 فیصد حصہ نشاستہ دار غذاؤں سے حاصل کیجیے۔ بقیہ حرارے پروٹین اور چربی والے کھانوں سے لیجے۔ دوسری اہم بات یہ کہ اتنا زیادہ کھانا مت کھائیے کہ پیٹ بھرنے سے سانس لینا ہی مشکل ہوجائے۔

سائنس دانوں نے مختلف تجربات سے جانا ہے کہ جو جاندار کم کھانے کھائے، وہ دوسرے کی نسبت زیادہ عرصے زندہ رہتا ہے۔ گویا کم کھانا صحت و طوالت عمر کی ضمانت ہے۔ یہی نہیں، پیٹ کا ایک حصہ خالی رکھنے والے بڑھاپے میں بھی تندرست رہتے ہیں۔ رمضان المبارک بھی ہمیں یہی سبق دیتا ہے کہ اندھا دھند پیٹ نہ بھرو بلکہ ایک حصہ خالی چھوڑ کر کھانا کھاؤ۔

سیرٹوین پروٹینی جین

چند ماہ قبل یونیورسٹی آف فلوریڈا کے تینوں نوجوان محققوں، نے ایک انوکھا تجربہ کیا۔ انہوں نے 24 مردوزن رضا کار لیے اور ان کو کہا کہ وہ تیس دن تک صبح شام معمول کے مطابق کھانا کھائیں۔ لیکن صبح اور شام کے درمیانی اوقات میں فاقہ کشی اختیار کریں۔( یہی عمل روزہ رکھ کر مسلمان بھی انجام دیتے ہیں۔)اس تجربے سے محقق جاننا چاہتے تھے کہ چار ہفتے مسلسل دن میں فاقہ کشی کرنے سے ان کے خلیوں پر کس قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور منفرد تجربہ تھا اور اس تجربے سے حیرت انگیز نتیجہ سامنے آیا۔ماہرین کو علم ہوا کہ انسان جب مسلسل فاقہ کرے، تو اس کے جسم میں ’’سیرٹوین‘‘ (Sirtuin) نامی پروٹینی جین سرگرم و متحرک ہوجاتے ہیں۔ یہ پروٹینی جین ہر خلیے کے مرکزے (نیوکلس) اور مائٹو چونڈریا میں پائے جاتے ہیں۔ یہ نہایت اہم جین ہیں کیونکہ یہ خلیوں کو صحت مند رکھتے اور انہیں ٹوٹ پھوٹ سے بچاتے ہیں۔ نیز آزاد اصلیوں کو پیدا ہونے سے روکتے ہیں۔

سائنس داں اب تک سیرٹوین پروٹینی جین کی سات اقسام دریافت کرچکے۔ درج بالا تجربے سے فلوریڈا یونیورسٹی کے ماہرین نے دریافت کیا کہ جب انسان مسلسل روزے رکھے، تو اس کے خلیے سیرٹوین پروٹینی جین کی ایک قسم، سیرٹوین 3 کی کاپیاں (نقول) تیار کرنے لگتے ہیں۔ یہ نہایت اہم طبی دریافت ہے کیونکہ سیرٹوین 3 خلیوں کو بوڑھا ہونے سے بچاتا ہے۔ گویا جو مسلمان روزے رکھے، اس کے جسم میں زیادہ سیرٹوین 3 پروٹینی جین جنم لیتے ہیں۔ اس باعث بڑھاپے کے اثرات اس پر جلد اثر انداز نہیں ہوپاتے۔ یہ روزے رکھنے کا ایک اور بہت بڑا فائدہ ہے جو جدید سائنسی تحقیق سے سامنے آیا۔

پچھلے ایک برس میں سیرٹوین 3 پر دو تجربات ہوچکے اور ان سے بھی حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔ قبل ازیں بتایا جاچکا کہ آزاد اصلیوں کی کثرت سے جنم لینے والا تکسیدی دباؤ انسان کو بوڑھا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ بھوک و پیاس کی حالت بھی انسانی جسم میں تناؤ اور سوزش پیدا کرتی ہے۔ مگر اب آکر ماہرین طب نے جانا ہے کہ اس حالت میں دراصل سیرٹوین پروٹینی جین متحرک ہوجاتے ہیں۔ وہ پھر انسان میں بڑھاپے کا عمل آہستہ کرکے اسے پہلے کی نسبت تندرست بنا تے ہیں۔ یہ انکشاف اسی لیے سامنے آیا کہ جدید طبی سائنس انسانی جسمانی نظام کی جزئیات تک پہنچ کر اس کے حیران کن ذیلی نظاموں کا گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کررہی ہے۔ اسی تحقیق سے روزے رکھنے کے ایسے طبی فوائد افشا ہورہے ہیں جو پہلے انسان کی نظروں سے اوجھل تھے۔

روزے کی حالت میں انسانی جسم کے ہر خلیے میں واقع بجلی گھر یعنی مائٹوچونڈریا کو مطلوبہ غذا میسر نہیں آتی۔ بھوک کی اسی کیفیت میں سیرٹوین 3 پروٹینی جین کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔ وہ خلیے میں پائے جانے والے دو خاص میٹابولک خامرے (metabolic molecules) متحرک کردیتا ہے۔ انہی خامروں کے متحرک ہونے کی بدولت خلیہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ انسانی جسم میں جمع شدہ چربی یا پروٹین سے موثر انداز میں توانائی بناسکے۔بھوک پیاس کی حالت میں سیرٹوین 3 کا دوسرا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ ’’این اے ڈی پی ایچ‘‘ (Nicotinamide adenine dinucleotide phosphate) نامی کیمیائی عمل جنم دینے والے خصوصی خامروں کو بھی متحرک کردیتا ہے۔ اسی کیمیائی عمل کی مدد سے تمام خلیے اپنے آپ کو تکسیدی دباؤاور سوزش سے بچانے کی سعی کرتے ہیں۔ گویا سیرٹوین 3 ایک لحاظ سے خلیوں کا محافظ ہے جو انہیں مختلف حملوں سے بچاتا ہے۔

پہلا حیران کن تجربہ

پچھلے سال امریکی ریاست نیوجرسی کی روٹگیرز یونیورسٹی کے نیوجرسی میڈیکل سکول میں سائنس دانوں کی ایک ٹیم آر جی ایس 14(RGS14) نامی پروٹینی جین پر تحقیق کررہی تھی۔ اس کا تعلق ایسے پروٹینی جین گروہ سے ہے جو جی فیملی (G protein) نامی پروٹینی جین سرگرمیوں کو ریگولیٹ یا ترتیب دیتے ہیں۔ جی فیملی میں شامل پروٹینی جین کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ خلیے اور اس سے باہر موجود تمام جین کے مابین پیغام رسانی کرتے رہیں۔دوران تجربہ سائنس دانوں نے پانچ چوہوں کے جسم سے آر جی ایس 14 پروٹینی جین ختم کردیا۔ وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اس کی عدم موجودگی سے جانداروں کے جسم میں کس قسم کی تبدیلیاں آتی ہیں۔ تحقیق سے انکشاف ہوا کہ چوہوں کے جسم میں سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی کہ سفید چربی کی مقدار کم ہو ئی جبکہ ’’گندمی‘‘ چربی کی مقدار بڑھ گئی۔ یہ ایک انوکھی اور ناقابل یقین بات تھی۔

واضح رہے،انسان سمیت تمام بڑے جانداروں کے جسم میں دو قسم کی چربی پائی جاتی ہے۔ اول سفید چربی (white adipose tissue) اور دوم گندمی چربی (brown adipose tissue)جو صرف بچوں میں بکثرت ملتی ہے۔ یہ چربی بوقت پیدائش انہیں ہائپو تھرمیا سے بچاتی اور جسم میں درجہ حرارت متوازن رکھتی ہے۔ مگر جوں جوں جاندار بالغ ہو، گندمی چربی جسم میں بہت کم رہ جاتی ہے۔جبکہ جسم کے بیشتر حصے میں سفید چربی ہی نظر آتی ہے۔

ماہرین اپنے تجربے کا نتیجہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ اب وہ یہ جاننے کی جستجو کرنے لگے کہ وہ کون ہے جس نے چوہوں کے بدن میں گندمی چربی کی مقدار بڑھا دی؟ مزید تحقیق و تجربات سے افشا ہوا کہ جب بدن میں آر بی ایس 14 پروٹینی جین نہیں رہا، تو سیرٹوین 3 سفید چربی کو گندمی چربی میں تبدیل کرنے لگا۔ یوں سیرٹوین 3 کا ایک اور کرشمہ سامنے آگیا۔سفید کی نسبت گندمی چربی انسان سمیت تمام جان داروں کے لیے زیادہ مفید ہے۔ ماہرین دریافت کرچکے کہ گندمی چربی ممالیہ جان داروں میں شکر جذب ہونے کا نظام بہتر بناتی ہے۔ ہڈیاں صحت مند رکھتی اور خلیوں کی کارکردگی بڑھاتی ہے۔ غرض جان دار کو تندرست رکھنے میں گندمی چربی کا کردار سفید چربی کے مقابلے میں زیادہ اہم ہے۔

یہ عین ممکن ہے کہ روزے رکھنے سے مردوزن کے اجسام میں گندمی چربی کی تھوڑی بہت مقدار بڑھ جاتی ہو کیونکہ بتایا جاچکا، اس حالت میں خلیوں کے سیرٹوین 3 بہت سرگرم ہوتے ہیں۔ ممکن ہے، آر جی ایس 14 کی موجودگی میں بھی وہ انسانی جسم میں کچھ گندمی چربی پیدا کردیتے ہوں۔ یہ گندمی چربی بھی پھر روزے دار کی مجموعی تندرستی میں اپنا کردار ادا کرتی ہو۔روٹگیرز یونیورسٹی کے ماہرین عنقریب 25 رضا کار مردوزن پر اپنا تجربہ کرنے والے ہیں۔ وہ ان میں آر جی ایس 14 پروٹینی جین ختم کردیں گے۔ پھر دیکھا جائے گا کہ کیا انسانی جسم میں پائے جانے والے سیرٹوین 3 بھی انسان کی سفید چربی کو گندمی چربی میں تبدیل کرتے ہیں۔ اگر یہ تجربہ کامیاب رہا، تو انسان کے ہاتھ ایک تیر سے دو شکار کرنے کا قیمتی نسخہ لگ سکے گا۔وہ یوں کہ موٹاپے میں مبتلا انسانوں میں آر جی ایس 14 ختم کیا جائے گا۔ تب ان کے سیرٹوین 3 پروٹینی جین اپنا کام شروع کریں گے۔ یوں انسان نہ صرف مضر صحت سفید چربی سے چھٹکارا پائے گا بلکہ اسے عمر بڑھانے والی گندمی چربی بھی مل جائے گی۔

دوسرا یادگار تجربہ

سیرٹوین 3 کی خصوصیات دریافت کرنے کے سلسلے میں پچھلے سال ایک اہم تجربہ امریکا کی کیلی فورنیا یونیورسٹی آف برکلے میں کیا گیا۔ وہاں ماہرین طب نے ایسے بوڑھے چوہوں کے جسم میں سیرٹوین 3 کی مقدار بڑھادی جو مختلف امراض میں مبتلا تھے۔ مقدار بڑھانے سے نمایاں ترین نتیجہ یہ سامنے آیا کہ چوہوں کے خون میں سرخ خلیوں کی تعداد بڑھ گئی۔انسان سمیت تمام جانداروں میں خون کا 40 سے 45 فیصد حصہ سرخ خلیوں پر مشتمل ہے۔ یہ سرخ خلیے خون کے بہاؤ میں شامل ہوکر پورے جسم کے کونے کونے تک پہنچتے ہیں۔ ان کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ پھیپھڑوں سے آکسیجن لے کر ہر خلیے تک پہنچادیں اور ہر خلیے سے خراب ہوا یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ پھیپھڑوں تک پہنچائیں تاکہ وہ اسے باہر نکال سکیں۔

انسانی جسم کے ہر خلیے تک تازہ ہوا (آکسیجن) کی مسلسل فراہمی نہایت ضروری ہے کیونکہ اسی کی مدد سے خلیے اپنی سرگرمیاں صحیح طریقے سے انجام دیتے ہیں۔ اگر خلیوں کو مطلوبہ آکسیجن نہ ملے، تو وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔انسان سمیت سبھی جانداروں کے جسم میں ہڈیوں کے گودے میں خلیوں کی خاص قسم ’’بنیادی خلیے‘‘ (stem cells) پائے جاتے ہیں۔ یہی بنیادی خلیے خون کے نئے سرخ خلیوں کو جنم دیتے ہیں۔ جدید طبی تحقیق کے مطابق ہر بالغ انسان میں ہر ایک سیکنڈ میں 24 لاکھ نئے سرخ خلیے جنم لیتے ہیں۔ ایک سرخ خلیہ چار ماہ زندہ رہتا اور پھر مرجاتا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ بڑھاپا شروع ہوتے ہی ہڈیوں کے گودے میں بنیادی خلیوں کی تعداد گھٹنے لگتی ہے۔ چناں چہ وہاں سرخ خلیے بھی کم تعداد میں جنم لیتے ہیں۔

ان کی تعداد کم ہونے سے انسانی خلیوں تک آکسیجن بہ مشکل اور تھوڑی مقدار میں پہنچنے لگتی ہے۔ چناں چہ خلیوں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور وہ درست طریقے سے اپنی ذمے داریاں انجام نہیں دے پاتے۔ یہ منفی حالت بڑھاپا آنے کی رفتار تیز تر کردیتی ہے۔کیلی فورنیا یونیورسٹی، برکلے کے محقق اپنے تجربے کا نتیجہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ وہ پھر یہ کھوج لگانے لگے کہ سیرٹوین 3 نے ایسا کیا کمال کردکھایا کہ خون میں سرخ خلیوں کی تعداد بڑھ گئی؟ ان کی تعداد بڑھنے سے بوڑھے ہوتے چوہوں میں نمایاں مثبت تبدیلیاں دیکھی گئیں۔

ان کی جلد پر پڑتی جھریاں دور ہونے لگیں۔ آنکھوں میں چمک آگئی اور وہ پہلے کی نسبت زیادہ چاق و چوبند ہوگئے۔ غرض ان کی مجموعی صحت ماضی کے مقابلے میں خاصی بہتر ہوگئی۔تحقیق سے افشا ہوا کہ سیرٹوین 3 کی مقدار بڑھنے سے چوہوں کی ہڈیوں کے گودے میں بنیادی خلیے زیادہ سرخ خلیے پیدا کرنے لگے۔ وجہ یہ کہ سیرٹوین 3 کی کثرت کے باعث بنیادی خلیے تکسیدی دباؤ سے نجات پاگئے۔ جب ان پر دباؤ کم ہوا، تو وہ قدرتاً زیادہ سرخ خلیے پیدا کرنے لگے۔

اس زبردست تجربے سے عیاں ہوا کہ رمضان المبارک میں روزے رکھ کر مسلمانان عالم صحت کیوں پاتے ہیں! وجہ یہی کہ بھوکا رہنے پر ان میں سیرٹوین 3 پروٹینی جین بکثرت جنم لیتے ہیں۔ ان کی مقدار بڑھنے سے ہڈیوں کے گودے میں بنیادی خلیے تکسیدی دباؤ سے نجات پاتے اور زیادہ سرخ خلیے پیدا کرتے ہیں۔ خون میں نئے سرخ خلیوں کی کثرت روزے دار کی مجموعی صحت بہتر بنا دیتی ہے۔ نیا خون روزے دار کو تندرست کردیتا ہے۔کیلی فورنیا یونیورسٹی، برکلے کے ماہرین اب رضا کار مردوزن پر سیرٹوین 3 کا تجربہ کریں گے۔ انہیں یقین ہے کہ یہ تجربہ بھی پہلے تجربے جیسے نتائج سامنے لائے گا کیونکہ خلویاتی سطح پر انسان سمیت تمام جانداروں کے جسمانی نظاموں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔یہ عین ممکن ہے کہ مستقبل میں ’’سیرٹوین 3 علاج‘‘ سامنے آجائے۔ یہ علاج اپناتے ہوئے بوڑھے مردوزن کے جسم میں سیرٹوین 3 کی مقدار بڑھائی جائے گی۔ مدعا یہ ہوگا کہ ان میں نئے سرخ خلیے جنم لے سکیں تاکہ وہ انسان کو بڑھاپے کے اثرات سے بچالیں۔ یوں ایک نیا بڑھاپا روک علاج دریافت ہو سکے گا۔

درج بالا حقائق سے آشکارا ہے کہ تمام مسلمانوں کو چاہیے، رمضان المبارک میں وہ کھانے پینے کا جو نظام اختیار کرتے ہیں، اسے وہ سارا سال بھی اپنا سکتے ہیں،یوں یہ آسمانی نظام ان کی صحت وتندرستی کا ضامن بن جائے گا۔