The Health Card will be issued to extend the benefit to the handicaps
April 21, 2019 by PharmaReviews | 0 comments
April 21, 2019 by PharmaReviews | 0 comments
April 8, 2019
by PharmaReviews
0 comments
April 1, 2019
by PharmaReviews
0 comments
حیرت انگیز طور پر انہیں 65 سال کی عمر میں اپنی اس خاصیت کا ادراک اس وقت ہوا جب ڈاکٹروں نے ان کے ہاتھ کا ایک طویل آپریشن کیا اور اس کے بعد انہیں درد کم کرنے کی کوئی دوا نہیں دی گئی اور انہیں خبردار کیا گیا تھا کہ آپریشن کے کئی روز تک انہیں شدید تکلیف ہوگی لیکن جو اس درد سے بے نیاز رہیں۔
بعد ازاں یونیورسٹی کالج لندن اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے جینیاتی ماہرین نے ان کے کئی ٹیسٹ کئے۔ معلوم ہوا کہ وہ ایک نایاب جینیاتی کیفیت کی شکار ہیں جو درد کی منتقلی ، رویے اور یادداشت کے سگنل کو آگے بڑھنے نہیں دیتا جس سے خاتون کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔
اس سے قبل ان کے کولہے کی ہڈی متاثر تھی اور وہ چلنے میں دقت محسوس کررہی تھیں لیکن درد نہ ہونے کی بنا پر ڈاکٹروں نے ان کا ایکس رے نہیں کرایا۔ لیکن ان کے کولہے کا آپریشن کرایا گیا تو اس کے بعد درد کم کرنے
کے لیے خاتون نے صرف دو پیراسیٹامول روزانہ کھائیں اور انہیں کوئی خاص تکلیف نہیں ہوئی۔
اس کے بعد ان کے ڈاکٹروں نے خاتون کے انگوٹھے کو نوٹ کیا جو شدید گٹھیا (اوسٹیوآرتھرائٹس) کے مریض کی وجہ سے ٹیڑھا ہورہا تھا لیکن درد محسوس نہ ہونے پر خاتون اس سے لاپرواہ تھیں۔ اس کے لیے خاتون کا تکلیف دہ ڈبل ہینڈ آپریشن کرنا پڑا جس کے بعد کئی دن درد محسوس ہوتا ہے لیکن خاتون صرف دو پیراسٹامول سے ہی اپنی تکلیف دور کرتی رہیں۔
خاتون نے کہا کہ انہیں اپنے بچے کی ولادت کے وقت بھی کوئی درد نہیں ہوا اور کئی مرتبہ انہوں نے باورچی خانے میں اپنا ہاتھ بھی جلایا مگر جلنے کے احساس سے عاری رہیں۔
اس کے علاوہ وہ کبھی غمزدہ نہیں ہوتیں اور مایوسی کے نام سے بھی واقف نہیں۔ تاہم گٹھیا کے مرض کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے قاصر رہیں اور مرض کا احساس نہیں کرسکیں اس بنا پر انہوں نے کہا کہ زندگی کے لیے درد کا احساس بھی بہت ضروری ہے۔
ماہرین کے مطابق خاتون درد اور احساسات سے وابستہ ایک اہم جین میں تبدیلیاں رکھتی ہیں لیکن اس کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ وہ بہت بھلکڑ ہیں اور اکثر باتیں اور معاملات بھول جاتی ہیں۔
April 1, 2019
by PharmaReviews
0 comments
امریکی قومی مرکز برائے بایو ٹیکنالوجی کے مطابق ننھے بچوں کے دانتوں میں موجود خلیاتِ ساق (اسٹیم سیلز) ایک جانب تو ماحولیاتی نقصان سے بڑی حد تک دور ہوتے ہیں تو دوسری جانب وہ دیگرجسمانی اعضا کی تیاری میں بہت مدد دے سکتے ہیں۔ پھر ان کی بدولت کینسر کے علاج کے لیے بدن کے دوسرے حصوں سے گودے (بون میرو) حاصل کرنے کی ضرورت بھی کم ہوگی۔
اگرچہ یہ تحقیق ابتدائی درجے میں ہیں لیکن اس کی مدد سے امراضِ قلب، دماغی بیماریوں اور کینسر کے علاج میں بہت مدد ملے گی۔ دانتوں کے اندر خاص قسم کے خلیاتِ ساق پائے جاتے ہیں جنہیں ’ہیومن ڈیسی ڈیئس پلپ اسٹیم سیلز‘ ( ایچ ڈی پی ایس سی) کہا جاتا ہے۔
اس کیفیت میں ان کے خلیات ہر جسمانی عضو میں ڈھلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس درجے پر یہ جگر، ہڈیوں کی دوبارہ افزائش اور آنکھوں کے متاثرہ ٹشو بھی بناسکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق دس سال تک کے بچوں کے ٹوٹے ہوئے دانت بہت کارآمد رہتے ہیں۔
چین میں اس کا دلچسپ تجربہ کیا گیا جس میں بچوں کے دانتوں کے خلیات سے ایسے بالغ افراد میں دانت اگانے کا فیصلہ کیا گیا جن کے دانت گر چکے تھے۔ 30 مریضوں پر آزمائش کی گئی تو ان میں دانت اُگ آئے لیکن دانت آدھے اور جزوی طور پربنے تھے۔
یونیورسٹی آف پینسلوانیہ کے ماہرین نے بچوں کے دانتوں سے خلیات لے کر جب دانت کھو دینے والے افراد میں لگا کر انہیں مصنوعی دانت نصب کیا گیا تو مریضوں نے دانتوں کے اندر حساسیت محسوس ہوئی جس سے ظاہر ہے کہ یہ عمل منتقل شدہ دانتوں میں بھی حساسیت پیدا کرسکتا ہے۔
یہ بات بھی زیر غور رہے کہ بچوں کے دودھ کے دانت سے حاصل شدہ خلیات کو دیگر کئی اقسام کے امراض میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
April 1, 2019
by PharmaReviews
0 comments
ریاست نیو اورلینز میں ہونے والی طبی کانفرنس میں ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ مردوں کے لیے بنائی جانے والی نئی مانع حمل گولی نے ابتدائی حفاظتی مرحلہ کامیابی سے مکمل کر لیا ہے۔ 40 مردوں پر کی گئی یہ تحقیق نہ صرف نہایت کامیاب رہی بلکہ کورس کی تکمیل کے بعد ان مردوں کے ہارمون کی سطح بھی عمومی سطح پر واپس آگئی۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ واشنگٹن یونیورسٹی اور بائیو میڈ کی تخلیق کردہ دوا کی ایک گولی پورے 24 گھنٹے اسپرم بنانے والے ہارموں پروجیسٹن کو روک دے گا۔ پروجیسٹن مردانگی سے متعلق ہارمون ہے جس کے
فوطوں سے خارج ہونے کا عمل رک جانے سے اسپرم نہیں بنیں گے اور سب سے خاص بات یہ کہ اس دوا کے کوئی مضر اثرات بھی نہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ محدود تجربے میں حوصلہ افزا نتائج ملے ہیں کہ دوا بچوں کی پیدائش پر قابو پانے میں کس طرح مددگار ثابت ہو پائے گی، اس کے لیے دوا کو بڑے پیمانے پر اور زیادہ عرصے کے لیے تجرباتی طور استعمال کرایا جائے گا، یہی وجہ ہے کہ اس دوا کو بازار میں لانے میں ابھی ایک دہائی تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ عورتوں کے لیے مانع حمل گولی 50 سال پہلے برطانیہ میں بنائی گئی تھی تاہم مردوں کے لیے مانع حمل دوا پر پہلی مرتبہ تجربات کیے جا رہے ہیں۔
March 31, 2019
by PharmaReviews
0 comments
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک تازہ تحقیقی مقالے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ توانائی سے بھرپور ناشتہ کرنے والے افراد کا دل ناشتہ نہ کرنے والے یا نسبتاً کم ناشتہ کرنے والوں کے مقابلے میں زیادہ صحت مند رہتا ہے۔ یہ تحقیق یونان کی ایتھنز یونیورسٹی کے ماہرین امراض قلب کے شعبے کی جانب سے کی گئی جس کے لیے 2 ہزار افراد کا انتخاب کیا گیا۔
ماہرین قلب نے ان 2 ہزار افراد کے قلب کی صحت مندی کا جائزہ لیا، جس سے ثابت ہوا کہ معمول کی خوراک کے دوران پانچواں حصہ توانائی سے بھرپور ناشتہ کرنے والے افراد کے دل کی دیواریں اور شریانیں زیادہ مضبوط و صحت مند ہوتی ہیں۔ صحت مند دل والے افراد کے ناشتے میں دودھ، پنیر، زرعی اجناس، روٹی اور شہد شامل ہوتا ہے۔
ریسرچ کے نتائج سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ناشتہ نہ کرنے والے افراد میں سے 15 فیصد کی دل کی شریانوں میں غیر معمولی تبدیلی رونما ہوگئی تھی اور ایسے افراد میں دل کی دیواریں کمزور ہوگئی تھیں۔ اسی طرح ناشتہ سے گریز کرنے والے افراد میں گردن سے گزرنے والی شہہ رگ کے گرد چربی کی زیادہ مقدار جمع ہوجاتی ہے جو دل کے عارضہ کا سبب بن سکتی ہے۔
ریسرچ ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر سوتیریوس نے بتایا کہ تحقیق کے مکمل نتائج آئندہ ہفتے امریکن کالج آف کارڈیالوجی (اے سی سی) کے سالانہ اجلاس کے دوران پیش کیے جائیں گے۔ ڈاکٹر سوتیریوس دل کے امراض سے محفوظ رہنے کے لیے توانائی سے بھرپور ناشتہ تجویز کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق صحت مند خواتین کو 2 ہزار جب کہ مردوں کو ڈھائی ہزار یومیہ کیلوریز درکار ہوتی ہیں جس کا بیشتر دن کے پہلے کھانے میں لینا چاہیئے۔
March 31, 2019
by PharmaReviews
0 comments
اگرچہ پوری زندگی نئے خلیات اور بافتیں تشکیل پاتی رہتی ہیں لیکن دماغی ماہرین کا خیال تھا کہ عمررسیدگی میں نئے عصبی خلیات یا نیورونز بننا بند ہوجاتے ہیں۔ تاہم اسپین میں سیویرو اوکوا مالیکیولر بائیالوجی سینٹر سے وابستہ ڈاکٹر ماریہ لورینز مارٹن نے 13 ایسے افراد کے دماغوں کا مطالعہ کیا جو اس دنیا سے گزرچکے تھے۔ ان افرد کی عمریں 43 سے 87 برس تک تھیں۔ ماہرین نے احتیاط سے ان دماغوں کو دیکھا اور ان میں نئے خلیات کے بننے کا جائزہ لیا۔
مطالعے میں دماغ کے ایک اہم حصے ’’ہپوکیمپس‘‘ کا جائزہ بھی لیا گیا جہاں نئے خلیات جنم لیتے ہیں۔ ماہرین نے نیورون بنانے والے پروٹین کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ پروٹین بھی بن رہے ہیں اور دماغ میں ہزاروں نئے خلیات بننے کا عمل بھی دیکھا گیا ہے۔ یہ نیورون کئی اشکال اور جسامت کے تھے اور بعض بڑھوتری کے درجے سے گزررہے تھے۔
ماہرین نئے دماغی خلیات کی تشکیل کو ’’نیوروجنیسس‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ ڈاکٹر ماریہ کے مطابق ان کی ٹیم نے بوڑھے افراد کے دماغوں میں بھی نئے خلیات بنتے ہوئے دیکھے ہیں۔ اس سے قبل یہ دریافت کیا جاچکا ہے کہ 90 سالہ افراد بھی نئی یادداشتوں کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں کیونکہ نئی تحقیق بتاتی ہے کہ ان میں نئے ِخلیات بنتے رہتے ہیں۔
تاہم یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان فرانسسکو سے تعلق رکھنے والے دماغ کے ایک اور ماہر، آرتورو ایلواریز بائلیا اس تحقیق کے نتائج سے متفق نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مردہ افراد کے دماغوں میں خلیات پہلے سے موجود ہیں۔ انہیں دیکھ کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ آخر وقت تک بن رہے تھے۔ انسانی دماغ میں نئے خلیات کی تشکیل کو ناپنے والا اب تک کوئی طریقہ سامنے نہیں آسکا ہے۔ اس لیے مزید تحقیق تک اس مفروضے کو ماننا مشکل ہوگا۔
March 31, 2019
by PharmaReviews
0 comments
ماہرین طب نے کہا ہے کہ ڈائریا سے محفوظ رہنے کے لیے شہری بازارکی تلی ہوئی اشیا، سڑے گلے پھلوں اورکھلے ٹھیلوں پر بکنے والی کھانے پینے کی اشیا سے گریز کریں، ٹھیلوں پر فروخت کیے جانے والے مشروبات مضر صحت ہوتے ہیں، دھوپ میں رکھے مشروبات میں جراثیم نشونما پاتے ہیں، شدید گرمی میں بیسن کی تلی ہوئی اشیاکھانا نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شدید گرمی میں پسینے نکلنے کی صورت میں گھرکا ابلا ہوا ٹھنڈا پانی پئیں، شہری دوپہر کو کھانے میں ہلکی غذاکے ساتھ دہی استعمال کریں، رات کومرغن کھانوں سے گریز کیا جائے۔
ماہرین طب کا کہنا ہے کہ گرمی میں سب سے زیادہ ڈائریا کا مرض لاحق ہوتا ہے، ڈائریا کا مرض مضر صحت کھانے پینے کی اشیا سے جنم لیتا ہے گرم موسم میں زیادہ کھانے سے پیٹ اور آنتوں کے مسائل جنم لیتے ہیں۔
جناح اسپتال کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی
کا کہنا ہے کہ شدید گرمی میں کھانے پینے میں لاپرواہی سے ڈائریا کا مرض جنم لیتا ہے، جسم میں پانی کی کمی سے ڈی ہائیڈریشن ہوجاتی ہے، جسم میں پانی کی شدید کمی سے چکر آنا اور قے ہوسکتی ہے شہری گرم موسم میں غیر ضروری دھوپ میں نکلنے سے گریزکریں، دھوپ میں کام کرنے والے سر ڈھانپ کررکھیں، گرمی کی شدت میں اضافے کے پیش نظر سر پرگیلا کپڑا رکھا جائے۔
سول اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹرخادم حسین قریشی کا کہنا ہے کہ شہری شدید گرم موسم میں بازار کے مضر صحت کھانے پینے کی اشیا سے گریز کریں، گھرکا ابلا ہوا ٹھنڈا پانی پئیں کھانوں میں دہی شامل کی جائے ہلکی غذاؤں کے استعمال سے پیٹ کی بیماریوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے، گرمی میں زیادہ پسینے نکلنے سے جسم میں نمکیات کی کمی ہوجاتی ہے جسم سے جتنا پسینہ نکلے اتنا ہی پانی پئیں شہری گرمی میں کم کھائیں پانی زیادہ پئیں، پورے دن گرمی میں15گلاس پانی لازمی پئیں والدین اسکول جانے والے بچوںکو پانی کا تھرماس لازمی دیں۔
March 31, 2019
by PharmaReviews
0 comments
طبی ماہرین کے مطابق ڈاکٹروں اور طبی عملے پر عوام کے عدم اعتماد اور جھوٹی افواہوں کی وجہ سے ایبولہ کو قابو کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہورہی ہیں جس سے ڈی آر سی میں یہ مہلک وبا پھوٹ پڑی ہے۔ اس ضمن میں کانگو کے دو شہروں بینی اور بیوٹیمبو میں ایک سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ تین میں سے ایک فرد ہی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ حکومت اس بیماری سے لڑنے میں اس کی کوئی مدد کرسکتی ہے جبکہ 25 فیصد افراد نے کہا کہ ایبولہ وائرس کا کوئی وجود نہیں۔
اس سروے میں 36 فیصد لوگوں نے کہا کہ یہ ایک خودساختہ بیماری ہے جس کا مقصد کانگو کو غیرمستحکم کرنا ہے۔ جبکہ 1000 میں سے 961 افراد نے کہا کہ انہوں نے اس مرض کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں سن رکھی ہیں۔ یہ تحقیق ممتاز طبی جریدے لینسٹ میں شائع ہوئی ہے۔
مطالعے کے سربراہ اور ہارورڈ میڈیکل اسکول سے تعلق رکھنے والے اسکالرپیٹرک ونک نے یہ بھی کہا کہ کانگو میں ایبولہ سے متاثرہ افراد کسی ڈاکٹر کی بجائے اپنے محلے اور برادری میں ہی اس کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’اس طرح مریض ایبولہ کے مصدقہ مراکزی کی بجائے عطائی ڈاکٹروں کے پاس جارہے ہیں جس سے انفیکشن تیزی سے پھیل رہا ہے،‘
سال 2014 سے 2016 تک ایبولہ وائرس پہلے مغربی افریقہ میں نمودار ہوا تھا جس میں 11 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے اور اب کانگو میں اس کے حملہ دوسری بڑی مہلک وبا کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ 2014 میں ایبولہ کی وبا پھوٹنے کے بعد اس کی ویکسین پر کروڑوں ڈالر خرچ کئے گئے۔
کانگو میں جب لوگوں سے پوچھا گیا کہ آیا وہ اس بیماری کی ویکسین آزمانا چاہیں گے تو صرف 60 فیصد لوگوں نے ہی ایبولہ ویکسین استعمال کرنے کی حامی بھری۔
1974 میں پہلی مرتبہ کانگو میں ایبولہ وائرس دریافت ہوا تھا اور ایبولہ نامی دریا کے پاس دریافت ہونے کی وجہ سے اس کا نام ایبولہ وائرس رکھا گیا تھا۔