February 8, 2019
by PharmaReviews
0 comments

خواتین کا دماغ ہم عمر مردوں سے 3 سال جوان ہوتا ہے، تحقیق

خواتین ضعیفی کی عمر تک پہنچ کر بھی ذہنی امراض سے نسبتاً محفوظ رہتی ہیں (فوٹو : فائل)

واشنگٹن: سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خواتین کا دماغ اپنے ہم عمر مردوں کے مدمقابل تین سال زیادہ جوان ہوتا ہے۔

امریکی سائنسی جرنل نیشنل اکیڈمی آف سائنس میں شائع ہونے والے ایک متنازع مقالے میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خواتین کا دماغ اپنی عمر کے مردوں کے مقابلے میں 3 سال زیادہ جوان ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ خواتین ضعیفی کی عمر کو پہنچ کر بھی ذہنی امراض سے نسبتاً محفوظ رہتی ہیں۔

واشنگٹن یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے لوگوں کے ذہن کی تحولی عمر(metabolic age) جاننے کے لیے جدید سائنسی بنیادوں پر تحقیق کی، جس کے لیے ایک خاص طریقے ’ایروبک گلائی کولائسس‘ کا استعمال کیا گیا۔ اس طریقے میں بچپن سے بڑھاپے تک دماغ کی نمو میں ہونے والی تبدیلیوں کو جانچنے کے لیے گلوکوز کی شرح ریکارڈ کی جاتی ہے۔

ضعیف افراد کے دماغ سے گلوکوز کی نہایت کم مقدار پمپ ہوتی ہے جس کے باعث دماغ کے خلیات اور نروز کو مقررہ توانائی میسر نہیں ہوپاتی لیکن اس عمر کی خواتین میں بھی دیکھا گیا کہ مردوں کے مقابلے میں ان کے دماغ میں گلوکوز کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے۔

سائنس دانوں نے اس تحقیق کے لیے ایک ہی عمر کی 121 خواتین اور 84 مردوں کا انتخاب کیا۔ ان تمام افراد کے دماغ کا پی ای ٹی اسکین کرایا گیا۔ اس ٹیسٹ میں دماغ میں آکسیجن اور گلوکوز کے بہاؤ کو ناپا جاتا ہے۔ ٹیسٹ کے نتائج حیران کن ثابت ہوئے خواتین کا دماغ اپنی عمر کے لحاظ سے 3 سال 8 ماہ جوان جب کہ مردوں کا دماغ 2 سال 4 ماہ زیادہ بوڑھا ہوتا ہے۔

February 8, 2019
by PharmaReviews
0 comments

طبی ماہرین کی کوششیں کامیاب، مختلف اقسام کے کینسر کے علاج کی تکنیک دریافت

 نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیزکے ماہرین کی ٹیم امریکا میں 3 ماہ کی تربیت لینے کے بعد یہ انقلابی طریقہ علاج پاکستان میں متعارف کرائیگی۔ فوٹو: فائل

کراچی: طبی محققین کی سرتوڑ کوششوں کے نتیجے میں خون سمیت دیگر اقسام کے کینسر کے علاج کے لیے نئی کامیاب تکینک دریافت کرلی گئی جس کی منظوری امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے بھی دیدی ہے اوراس علاج کو تسلیم کرتے ہوئے یورپی ممالک میں اس تکنیک کوعلاج کے لیے متعارف بھی کرادیا گیا ہے۔

برطانیہ میں 11سالہ بچے کا اس تکینک کے ذریعے علاج کیاگیا، طبی زبان میں اس تکنیک کوCAR.T Cancer Therapy کا نام دیاگیا ہے۔ طبی ماہرین نئی تکنیک کوکینسر کے علاج کے لیے انتہائی کامیاب قرار دے رہے ہیں، پاکستان میں اس تکنیک کومتعارف کرانے کے لیے نیشنل انسٹیٹوٹ آف بلڈ ڈیزیزکے ماہرین کی ٹیم آئندہ ماہ امریکا روانہ ہوگی، 3 ماہ کا تربیتی عمل مکمل کرنے کے بعد پاکستان میں بھی اس تیکینک کے ذریعے خون سمیت دیگر اقسام کے کینسر میں مبتلا مریضوں کا علاج ممکن ہوجائے گا۔

اس حوالے سے نیشنل انسٹیٹوٹ آف بلڈ ڈیزیزکے سربراہ اور پاکستان میں بون میرو علاج کے بانی ڈاکٹر طاہر شمسی نے بتایا کہ امریکی اداے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA ) نے2018میں نئی تکنیک کے ذریعے علاج کو تسلیم کرتے ہوئے علاج کرنے کی اجازت دیدی ہے، امریکا سمیت دیگر پورپی ممالک میں اس تیکنیک کے ذریعے خون کے کینسرکے آخری اسٹیج کے مریضوں کا علاج شروع کردیاگیا ہے جس کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہورہے ہیں۔

CAR.T Cancer Therapy کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ مریض کے خون سے T.Liymphocyte کو جین تھراپی کے ذریعے کینسر کے سیل کے اوپری سطح پر پائے جانے والے ذرات کے خلاف قوت مدافعت پیداکی جاتی ہے، اس کے بعد T.Liymphocyteکو لیبارٹری میں کلچرل (گروتھ، نشوونما) کرکے ان کی تعداد میں کئی سو گنا اضافہ کیاجاتا ہے بعدازاں T.Liymphocyte کومتاثرہ مریض کے جسم میں واپس منتقل کیاجاتا ہے جو مریض کے جسم میں داخل ہوکر کینسرکے خلیات پر پوری قوت کے ساتھ حملہ کرکے ان کو تباہ کردیتا ہے۔

اس طریقہ علاج سے مریض کو کیموتھراپی کی بھی ضرورت نہیں پڑتی اورکینسر کے مرض پر قابوپالیاجاتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ اس انقلابی طریقہ علاج سے مستقبل میں ہر قسم کے کینسر کا علاج ممکن ہوسکے گا۔

اس علاج میں3ماہ کا عرصہ لگتا ہے لیکن مریض مکمل طورپر صحت یاب ہوجاتا ہے، ڈاکٹر طاہر شمسی نے بتایا کہ گذشتہ ماہ امریکا میں خون کی بیماریوںکے سلسلے میں ہونے والی کانفرنس میں پیش کیے جانے والے مقالوں میں اس طریقہ علاج میں پیش رفت اور نتائج سے ماہرین کوآگاہ کیا گیا۔

اعدادوشمار کے مطابق زیرِعلاج مریضوںکی بڑی تعداد کو اس علاج سے فائدہ ہوا۔ آخری اسٹیج پر پہنچ جانے والے مریضوں نے CAR-T Cell therapy مرض پر مکمل قابو پالیا اور یہ مریض صحتمند زندگی گزارنے کے قابل ہوگئے۔

امریکی ادارے FDA نے اس طریقہ علاج کی منظوری دیدی اور یورپ میں لمفوما اور بچوںکے لیوکیمیا کے لیے اس کی یقینی فراہمی کے لیے اقدامات کر لیے گئے ہیں۔

طبی ماہرین کے مطابق اس طریقہ علاج نے کینسر کے علاج کی نئی سمت متعین کردی ہے اور مستقبل میں مختلف اقسام کے کینسر پر CAR-T Cell therapy کے ذریعے قابو پایا جا سکے گا۔ یہ طریقہ علاج اس وقت امریکا، چین اور یورپ میں اپنایا جارہا ہے اور مستقبل میں دیگر ممالک کے مریض بھی اس سے مستفید ہوسکیں گے۔

February 8, 2019
by PharmaReviews
0 comments

ذیابیطس سے بچاؤ کیلیے نیچروپیتھی کیا کہتی ہے؟

ذیابیطس کی علامات پیدا کرنے والے اسباب دور کرنے سے مریض کی صحت بھی مکمل طور پر بحال ہوسکتی ہے۔ فوٹو: فائل

انسان کی تخلیق فطری اصولوں کے عین مطابق کی ہے۔ جب تک وہ فطرت اور فطری طریقوں پر عمل پیرا رہتا ہے تب تک ہر دو طرح کے جسمانی وروحانی مسائل سے محفوظ رہتا ہے۔ جونہی فطرت سے متصادم راستے اپنانے کی کوشش کرتا ہے تو معلوم اور نا معلوم بے شمار مسائل میں گھر کے رہ جاتا ہے۔

انسانی جسم ایک خود کار مشین کی طرح کام سر انجام دیتا ہے۔ اس میں پائے جانے والے لا تعداد نظام اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی ذمے داریاں سر انجام دے رہے ہیں۔ جب بھی کوئی بیرونی عنصر جسم کے کسی ایک نظام کی کارکردگی میں دخل اندازی کرتا ہے تو ردِ عمل کے طور پر انسانی جسم جن علامات کا اظہار کرتا ہے ماہرین اسے مرض کا نام دیتے ہیں۔

زیر نظر مضمون میں ہم نیچرو پیتھی( یادرہے کہ فطری عمل کی حد بندی میں صحت کے اصول کو ’نیچروپیتھی‘ کا نام دیا گیا، اس طریقہ علاج کے مطابق فطری اور سادہ غذائیں، پھل، سبزیاں، کھلی دھوپ،غسل اور ورزش وغیرہ ہی اصل صحت کے اصول ہیں۔ اس کے موجد ڈاکٹر لوئس کوہنی ہیں اس فن علاج کی تاریخ 150 سال پرانی ہے) کے حوالے سے چند معروضات سپردِ قلم کریں گے کہ ذیابیطس کیا ہے؟ اور اس سے بچاؤکیسے ممکن ہے؟

ذیابیطس کا شمارموجودہ دور کے خطرناک اور تکلیف دہ امراض میں ہوتا ہے۔لوگ اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے چکر میں کڑوی اشیا کا بڑی وافر مقدار میں استعمال کرتے ہیں۔ذیابیطس کے لیے استعمال کی جانے والی جڑی بوٹیوں میں چرائتہ،پنیر ڈوڈی،نیم،حنظل(تمہ) اور کریلا وغیرہ شامل ہیں۔

عوام الناس شاید یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ تلخی اور کڑواہٹ مٹھاس کی ضد ہے۔ یوں کڑوی چیزیں کھانے سے ذیابیطس کا خاتمہ ہو جائے گاحالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہے کیونکہ طبی ماہرین کے ایک جماعت کے مطابق ذیابیطس کسی ایک علامت یا بیماری کا نام نہیں ہے بلکہ یہ کئی ایک علامات اور عوارض کے مجموعے کا نام ہے جو غذائی ردِ عمل کے طور پر سامنے آتا ہے۔

یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر ذیابیطس کے مریض اپنے معمولات ِ زندگی اور روز مرہ غذاؤں میں ردو بدل کرلیں تو وہ کافی حد تک اس کے مضر اثرات اور مہلک کیفیات سے محفوظ رہنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

ذیابیطس کی علامات پیدا کرنے والے اسباب کو دور کر دینے سے نہ صرف اس کی ظاہری علامات ختم ہوجاتی ہیں بلکہ مریض کی صحت بھی مکمل طور پر بحال ہوجاتی ہے۔ نیچرو پیتھی کی رو سے عام طور پر ذیابیطس کی پانچ اقسام ہیں: معوی ،معدی ،کبدی دماغی اور بانقراسی اور ان کے پیدا کرنے میں درج ذیل عوارض اور اعضا کی خرابی شامل ہوتی ہے۔

معوی ذیابیطس

امعاء یا انتڑیوں کی خرابی سے پیدا ہونے والی ذیابیطس، انتڑیوں کی کار کردگی میں خرابی واقع ہوجانے سے بھی ذیابیطس کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔اگر ابتدائی طور پر اس خرابی کو دور کر دیا جائے تو ذیابیطس کی علامات بھی خود بخود ختم ہوجاتی ہیں۔انتڑیوں کی خرابی میں دائمی قبض،انتڑیوں کی سوزش،انتڑیوں کی حرکاتِ دودیہ میں نقص واقع ہونا، انتڑیوں میں زہریلی گیسوں کا ٹھہر جانا اورخشکی کی تہہ بن جانا وغیرہ شامل ہیں۔

انتڑیوں میں فاضل مادوں کے زیادہ دیر تک رکے رہنے کی وجہ سے تعفن پیدا ہو جاتا ہے۔ اجابت کھل کر نہیں ہوتی۔مریض پیٹ میں بھاری پن اور بوجھ سا محسوس کرتا ہے۔دن میں کئی بار رفع حاجت کی خواہش تو ہوتی ہے مگر فراغت نہیں ہو پاتی۔اکثر اوقات امراضِ امعا میں مبتلا افراد کو چھوٹا پیشاب بار بار آنے لگتا ہے اور ہر بار پاخانہ بھی قلیل مقدار میں خارج ہوتا ہے رہتا ہے۔ راقم الحروف کی ذاتی پریکٹس میں اس طرح کے بے شمار مریض آچکے ہیں جن کی انتڑیاں درست ہوتے ہی ذیابیطس بھی جان چھوڑ گئی۔

علاوہ ازیں ماہرین طب جانتے ہیں کہ انسانی جسم کی عمدہ کاکردگی میں 80% تک انتڑیوں کی بہتر کارکردگی کا عمل دخل ہوتا ہے۔انتڑیوں کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ ثقیل،نفاخ اور دیر ہضم غذاؤں کا بے دریغ اور تواتر سے استعمال ہے۔انتڑیوں کی خرابی سے پیدا ہونے والی ذیابیطس کو معوی شوگر کا نام دیا جاتا ہے۔

یہاں یہ امر قابل وضاحت ہے کہ جو معالجین اسبابِ مرض کو دور کرنے پر توجہ دیتے ہیں اور ظاہری علامات کی بجائے) Basic Root (جڑ کو اکھاڑنے کی تگ و دو کرتے ہیں وہ مریض کو اس کے مرض سے نجات دلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔مثلاََ معوی ذیابیطس کا علاج کرتے وقت اگر انتڑیوں کی کار کردگی کی درستگی پر دھیان دیا جائے گا تو خرابی دور ہو جانے کی صورت میں ظاہری علامات بھی ختم ہو جائیں گی۔

معدی ذیابیطس

بعض اوقات معدے کی خرابی کے باعث ذیابیطس کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں جسے معدی ذیابیطس کہا جاتا ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں میں سے اکثریت کو کھانے کی طلب بار بار ہوتی ہے اور یوں مریض اور معالج یہ سمجھ لیتے ہیں کہ معدہ اپنا فعل درست طریقے سے سر انجام دے رہا ہے حالانکہ یہ نظریہ یا خیال درست نہیں ہے بلکہ علمِ طب کی رو سے بار بار کھانے کی طلب اور وقت بے وقت بھوک کی شدت کا احساس ہونا الگ سے ایک بیماری ہے جسے جو ع ابقر کا نام دیا جاتا ہے۔یہ معالج کی ذمے داری ہے کہ وہ مرض کی تشخیص مکمل سوجھ بوجھ سے کرے اور اسباب کے خاتمے پر دھیان دیتے ہوئے معدے کے امراض کا علاج کرے۔انشا ء اللہ معدی ذیابیطس کی علامات کا خاتمہ ہوجائے گا۔

کبدی ذیابیطس

کبد جگر کا دوسرا نام ہے لہٰذا ایسے افراد جو کافی عرصے تک جگری امراض میں مبتلا رہتے ہیں بعض اوقات ذیابیطس کی علامات انہیں بھی تنگ کرنے لگتی ہیں۔اگر امراضِ جگر کے علاج پر توجہ دی جائے تو مریض ذیابیطس کے چنگل سے چھٹکارا پانے میں بھی کامیاب ہوجاتا ہے۔عام طور پر امراضِ جگر میں غلبۂ صفرا اور سودا،جگر کے سدے، جگر کی سوزش (Hepatitis) وغیرہ شامل ہیں۔ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ جگر کی خرابی میں پتے اور تلی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ صفرا کا مرکز پتہ ہے جبکہ تلی سودا کا گھر ہے۔لہٰذا ذیابیطس کے اسباب میں پتہ اور تلی بھی شامل ہو سکتے ہیں۔دورانِ علاج معالج کی معالجاتی بصیرت پر دار ومدار ہوتا ہے کہ مرض کی تشخیص کس سطح پر جا کر کرتا ہے۔

دماغی ذیابیطس

ہمارے سر میںدماغ کے قریب بلغم پیدا کرنے والا غدود پایا جاتا ہے۔ ایسے افراد جن کا مزاج بلغمی ہوتا ہے ،جسم میں بلغم کی مقدار ضرورت سے زیادہ جمع ہو جانے سے بھی بعض اوقات ذیابیطس کی علامات ستانے لگتی ہیں۔ایسی ذیابیطس کو دماغی کہا جاتا ہے۔علاوہ ازیں ذہنی امراض کے نتیجے میں حملہ آور ہونے والی ذیابیطس کو بھی برین شوگر کہا جاتا ہے۔دماغی ذیابیطس کا رجحان ایسے افراد میں زیادہ پایا جاتا ہے جو بات بے بات ٹینشن،ڈپریشن اور ذہنی اضطراب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ویسے بھی علمِ طب کی رو سے کسی ایک اخلاط کی کمی یا زیادتی امراض کا باعث بن جاتی ہے۔ بلغم کی زیادتی خون میں شامل ہوکر نظامِ دورانِ خون کو متاثر کرتی ہے جس سے بلڈ شوگر کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔

جنرل ذیابیطس

عام حملہ آور ہونے والی ذیابیطس بانقراس یا لبلبہ کے فعل میں خرابی پیدا ہونے سے واقع ہوتی ہے۔ لبلبہ ایک ایسا غدود ہے جو جسم میں انسولین کی مطلوبہ ضرورت کو پوری کرتا ہے۔چکنائیوں کے بے دریغ استعمال سے اس کے فعل میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے چونکہ بدنِ انسانی میں شوگر لیول کو قابو میں رکھنا انسولین کا کام ہے۔ لہٰذا انسولین کی کمی یا زیادتی سے شوگر لیول متاثر ہو جا تا ہے اور ذیابیطس کی تکلیف دہ علامات سامنے آنے لگتی ہیں۔یاد رہے کہ بانقراس کے فعل میں خرابی غیر معیاری خوراک،سہل پسندی اور دیگر ماحولیاتی عناصر سے پید اہوتی ہے۔لبلبے کی خرابی سے حملہ آور ہونے والی ذیابیطس کو بانقراسی یا جنرل ذیابیطس کہا جاتا ہے۔

خوراک اور روز مرہ معمولات کے حوالے سے چند معروضات

یوں تو ورزش سب کے لیے فائدہ مندہے لیکن ذیابیطس کے مریضوں کے لیے فائدہ مند ہو نے کے ساتھ ساتھ سو گنا زیادہ ضروری بھی ہے۔ ورزش کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنالیں۔ ایسے مریض جو تبخیر،گیس اور تیزابیت میں مبتلا ہوں وہ کھیرااور بند گوبھی کو بطورِ سلاد استعمال نہ کریں۔چاول،پھول گوبھی ، بیگن، مونگرے شملہ، بھنڈی اور دال ماش بھی ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔

ایسے مریض جنہیں پیشاب بار بار آنے کی تکلیف لاحق ہو وہ چائے اور کولا مشروبات وغیرہ سے ممکنہ حد تک بچیں پھلوں میں خربوزہ ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ کھانے سے پہلے نہانا اور نہانے کے فوراََ بعد کھانا بھی امراض کا سبب بنتا ہے۔علاوہ ازیں نہانے کے بعد پانی پیناتو ازحد نقصان دہ ہوتا ہے۔ شوگر کے مریضوں کے لیے کیلا بھی تکلیف بڑھانے کاذریعہ بن سکتا ہے۔

البتہ ایسے افراد جنہیں ذیابیطس غلبہ صفرا کی وجہ سے ہو ان کے لیے کیلا مفید ہوتا ہے۔ناشتے میں دہی،روغنِ بادام اور خالص شہد کو لازمی شامل کریں یہ قوتِ مدافعت میں اضافے کا قدرتی ذریعہ ہیں۔ قبض میں مبتلا افراد کو تیز جلاب آور ادویات سے پرہیز کرنا چاہیے۔کچی سبزیاں اورپھل قبض سے بچاؤ کا بہترین ذریعہ ہیں۔بازاری مٹھائیوں با لخصوص چاکلیٹی مصنوعات سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔

ذیابیطس کے مریضوں کو چاہیے کہ وہ بینگن،دال مسور، چاول اور بڑے گوشت سے حتی المقدور دور رہیں۔ مولی بطورِ سلاد کھانے سے پرہیز کریں ہاں البتہ پتوں سمیت پکا کر اس کے غذائی فوائد سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ذیابیطس سے بچاؤ اور اس کے خاتمے کے لیے سنے سنائے ٹوٹکوں اور خود معالجاتی طرزِ عمل سے بچا جائے اور کسی ماہر معالج اور نیچرو پیتھ کے مشورے سے غذا اور دوا کا استعمال کیا جائے تو ہم مکمل وثوق سے کہتے ہیں کہ ذیابیطس سے بچاؤ ممکن ہے ۔

February 8, 2019
by PharmaReviews
0 comments

کبھی کبھار ایک کامیاب یا ناکام دن کے درمیان صرف ایک گھنٹے کا فرق ہوتا ہے۔ ایک اضافی گھنٹہ سونا، ورزش کرنا یا گھنٹہ بھر دل لگا کر کام کرنا آپ کی زندگی اور کام کرنے کے اندازمیں بہت بڑا فرق لا سکتا ہے

زیادہ سونے اور مقررکردہ وقت پر سونے کے مختلف اور بے پناہ فوائد ہیں، ماہرین۔ فوٹو: فائل

صبح سویرے اٹھ کی جِم جانے سے لے کر رات دیرتک دفتری کام کرنا یا بستر پر لیٹ کر قسط در قسط مسلسل اپنا پسندیدہ شو دیکھنا یہ سب کچھ تقریباً ہم سب ہی کر چکے ہیں۔

عموماً ہم مختلف طریقوں سے وقت پر سونے میں تاخیر کرتے رہتے ہیں۔ تاہم اگر آپ صحت مند رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے سونے کے لیے وقت نکالنا پڑے گا۔ کیونکہ اگر آپ صرف ایک گھنٹہ مزید سونے میں کامیاب ہو جائیں تو نہ صرف آپ بہتر محسوس کریں گے بلکہ بہتر دِکھیں گے بھی اور کام بھی اچھی طرح کر سکیں گے لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اضافی گھنٹہ کی نیند محض شروعات ہے۔ نیند کے اصل فوائد مناسب اوقات مقرر کر کے اور ہرحال میں ان پر عمل کر کے اٹھائے جا سکتے ہیں۔
نیند پوری کرنے کے کیا فوائد ہیں؟

ماہرین کے مطابق زیادہ سونے اور مقررکردہ وقت پر سونے کے مختلف اور بے پناہ فوائد ہیں۔ امریکا کی جان ہوپکن یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور کم خوابی اور خواب آور ادویات کی ماہر ریچل سیلیس کا کہنا ہے:’آپ بہتر محسوس کریں گے، آپ زیادہ توانا ہوں گے، آپ کے خیالات بہتر ہوں گے، آپ اپنی ٹیم یا ادارے میں بہتر طرح سے فرائض سرانجام دے سکیں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’آپ کا مزاج بہتر ہو گا اور آپ کے پاس کام کے دوران نئے آئیڈیا دینے اور اس کا حصہ بننے کی زیادہ وجوہات موجود ہوں گی۔ اس کے علاوہ اچھی نیند آپ کے ظاہری جسم پر بھی اثر ڈالتی ہے کیونکہ کم سونے کی وجہ سے آپ کے وزن میں اضافہ ہو گا، آپ تھکے ہوئے نظر آئیں گے اوراس کے ساتھ ساتھ آپ کی آنکھوں کے نیچے حلقے بھی پڑیں گے۔‘

2013 میں بی بی سی نے یونیورسٹی آف سرے کے سلیپ ریسرچ سینٹر کے تعاون سے ایک تجربہ کیا تھا جس سے پتہ چلا کہ اضافی گھنٹہ سونے والے افراد کا ذہن کمپیوٹر ٹیسٹ کے دوران زیادہ بہتر طرح سے کام کرتا ہے۔

گزشتہ سال امریکہ میں کی گئی تحقیق کے مطابق آٹھ گھنٹے سونے والے طالب علموں نے امتحانات میں بہتر کاردکردگی کا مظاہرہ کیا۔ جبکہ یونیورسٹی آف میشی گن میں کی گئی تحقیق سے ثابت ہوا کہ کم خوابی کی وجہ سے باورچی اور سرجری جیسے مختلف شعبوں میں کام کرنے والوں کی یاداشت اور کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ ایک اور تحقیق سے ثابت ہوا کہ لگاتار دو راتوں تک چھ گھنٹے سے کم سونا آپ کو اگلے چھ روز تک سست بناسکتا ہے۔

سویڈن میں 13 سال تک 40000 افراد کا مشاہدہ کرنے کے بعد اس سال شائع کی گئی تحقیق کے مطابق زیادہ سونے والے لوگوں کے مقابلے میں کم سونے والے لوگوں میں اموات کی شرح زیادہ تھی، خاص طور پر ان لوگوں میں جن کی عمر 65 سال سے زیادہ تھی۔

آپ رات کو چھ گھنٹے سو کر یہ گمان کرتے ہیں کہ آپ کو اتنی ہی نیند کی ضرورت ہے لیکن ماہرین کے مطابق ایسا سوچنا بہت بڑی غلطی ہے۔ پروفیسر سیلیس کہتی ہیں کہ بعض اوقات لوگوں میں پرانی بری عادات ان میں صحت سے جْڑے کئی مسائل کا سبب بنتی ہیں۔

کم سونے کی وجہ سے سامنے آنے والی بیشتر بیماریوں میں وزن میں اضافہ، آدھے سر کا درد، اور مسلسل تھکان شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سلیسپ ایپنیا یعنی سوتے ہوئے سانس میں رکاوٹ آنا اور پروفیسر سیلیس کے بقول ’مائیکرو سلیپ‘ یعنی دن میں کچھ سکینڈوں کے لیے آنکھیں کھلی رہنے کے باوجود دماغ کا کام بند کر دینا جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

نیند کے اوقات متعینکرنے کی اہمیت

اضافی گھنٹے کی نیند یا نیند کے متعین اوقات، زیادہ بہتر کیا ہے؟ پروفیسر سیلیس کے مطابق دونوں چیزیں ضروری ہیں۔ مانٹریال کی میک گِل یونیورسٹی کی سلیپ لیبارٹری میں نفسیات کی ایسوسی ایٹ پروفیسر روئٹ گروبر کہتی کہ بہترین نیند کے لیے گھنٹوں کی کوئی خاص تعداد نہیں ہے لیکن ایک طریقہ موجود ہے جس کے استعمال سے ہر شخص اپنے لیے بہترین نیند کے لیے درکار گھنٹوں کا تعین کر سکتا ہے۔

اگر آپ چھٹیوں پر ہوں یا اگلے دن آپ کو کوئی خاص کام نہ ہو تو ایک مناسب وقت پر الارم لگائے بغیر سو جائیں اور اگلے دن فطری طور پر خود اٹھیں۔ آپ جتنے گھنٹے سوئے ہوں گے، ہر رات آپ کو اتنے ہی گھنٹوں کی نیند پوری کرنی ہو گی۔ بہترین نیند کے لیے آپ کو اتنے ہی گھنٹے درکار ہیں۔

پروفیسر گروبر کہتے ہیں کہ ’ایک بار جب آپ ان گھنٹوں کا تعین کر لیں تو ہر حال میں اس پر قائم رہیں۔ ہر چیز اس کے مطابق کریں تاکہ آپ وقت پر سو سکیں اور ان اوقات پر قائم رہیں جن پر آپ فطری طور پر جاگے تھے۔‘

February 8, 2019
by PharmaReviews
0 comments

اسلام آباد: پاکستان میں پہلی مرتبہ ویسٹ نائل وائرس (ڈبلیواین وی) کا انکشاف ہوا ہے۔ اس کی موجودگی کے بعد ماہرین نے فوری طور پر اس پر مزید تحقیق اور توجہ کا مشورہ دیا ہے۔ ایک مچھر سے پھیلنے والا یہ وائرس کئی طرح کےدماغی و اعصابی امراض کی وجہ بنتے ہوئے مریض کی جان بھی لے سکتا ہے۔

الیکٹرون مائیکرواسکوپ سے لی گئی اس تصویر میں ویسٹ نائل وائرس نمایاں نظر آرہا ہے۔ فوٹو: سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن امریکا

مچھروں سے پھیلنے والے وائرس سے متاثر ہونے کے بعد 20 فیصد واقعات میں بخار، دردِ سر اور قے آتی ہے تاہم ایک فیصد سے کم واقعات میں دماغ متاثر ہوتا ہے اور مریض ہلاک بھی ہوسکتا ہے۔ ویسٹ نائل وائرس سے دماغی سوزش (اینسیفلائٹس)، دماغی بافتوں کی سوجن اور گردن توڑ بخار بھی ہوسکتا ہے۔

یہ تحقیق گزشتہ ماہ انٹرنیشنل جرنل آف انفیکشئس ڈیزیز میں شائع ہوئی ہے۔ صوبہ پنجاب میں 2016 سے 2018 تک خون کا عطیہ دینے والے 1,070 افراد کے خون کے نمونوں کی آزمائش کی گئی۔ لیکن نب ڈاکٹروں نے 2016 سے 2017 تک 4500 مچھروں کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ ویسٹ نائل وائرس ایک مختلف انداز سے زیرِ گردش ہے۔
اس پر تحقیق کرنے والے سینیئر ماہر محمد ثاقب فیصل آباد یونیورسٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ رپورٹ کے مصنف ہونے کی بنا پر انہوں نے بتایا کہ بنیادی طور پر یہ وائرس مچھروں کے کاٹنے سےپھیلتا ہے لیکن پاسکتان میں یہ خون کی منتقلی سے پھیل رہا ہے جو ایک بہت سنجیدہ مظہر ہے۔

ڈاکٹر محمد ثاقب اور اس پر تحقیق کرنے والے چینی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستانی عوام اس وائرس کی زد میں ہیں اور فوری طورپر نگرانی، اسکریننگ اور رپورٹنگ و علاج کی سہولیات فراہم نہ کرنے سے معاملہ مزید گھمبیر ہوسکتا ہے۔

1990 کے بعد سے اب تک ویسٹ نائل وائرس کے ایسی وبائیں تیزی سے پھوٹی ہیں جو دماغی امراض کی وجہ بنیں اور اس طرح عوام کے لیے خطرہ ثابت ہوتی رہی ہیں۔ تاہم جینیاتی تجزیوں سے اس کی کئی اقسام یا لینیج سامنے آئی ہیں۔ ان میں خاص طور پر 1999 میں نیویارک میں سامنے آنے والی لینیج ون مشہور ہے جو دماغی امراض کی وجہ بن سکتی ہے۔

اسی لحاظ سے پاکستان میں پایا جانے والا وائرس بھی ڈبلیو این وی کی لینیج ون سے تعلق رکھتا ہے۔ وائرس کی یہ قسم بھارت، روس، آسٹریلیا اور دیگر مقامات پر وبا کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ اس ضمن میں آغا خان یونیورسٹی میں خردحیاتیات کی ماہر اِرم خان نے بتایا کہ پاکستان میں مچھروں سے فروغ پانے والے امراض کی شدت، کیفیت اور پھیلاؤ کو اب تک سمجھا ہی نہیں گیا ۔ اس کی وجہ نگرانی اور رپورٹنگ کے باقاعدہ نظام کا نہ ہونا بھی ہے۔

ارم خان نے بتایا کہ اس ضمن میں ان کا ادارہ یونیورسٹی آف فلوریڈا میں نئے جراثیم اور وبائیات کے مرکز سے رابطے میں ہے اور پورے ملک میں ویسٹ نائل وائرس کی نشاندہی، رپورٹنگ اور نگرانی کا ایک باقاعدہ نظام بنایا جارہا ہے۔ اگلے مرحلے میں ان کی روشنی میں حکومت کو سفارشات بھی بھیجی جائیں گی۔

یہ رپورٹ سائنس فار ڈویلپمنٹ نیٹ ورک میں شائع ہوئی ہے جس کے مصنف سلیم شیخ ہیں۔

Head of Pharmacy, University of Sargodha – An Excellent Model of Corruption, Dishonesty and Misuse of Authorities in Pakistan.

February 6, 2019 by PharmaReviews | 0 comments

 


Warning: Undefined variable $total_images in H:\root\home\tahanazir-001\www\pharmareview\public_html\wp-content\themes\yoko\content-gallery.php on line 45

Warning: Undefined variable $total_images in H:\root\home\tahanazir-001\www\pharmareview\public_html\wp-content\themes\yoko\content-gallery.php on line 47
This gallery contains 0 photos