January 13, 2019
by PharmaReviews
0 comments

جانوروں سے منتقل ہونے والی بیماریاں

خسرہ، لاکڑہ کاکڑہ، انفلوئنزا، ایڈز، خناق اور ٹی بی سمیت متعدد بیماریاں جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوئیں

انسانوں اور جانوروں کا تعلق ازل سے ہے جنگلات اور پہاڑوں میں رہنے والے انسان سے لے کر آج تک کا انسان کسی نہ کسی طرح اپنی مختلف ضروریات جانوروں سے پوری کرتا ہے پالتو جانور اور اس کے پالنے والے بہت ہی قریب رہتے ہیں یوں بہت سی بیماریاں جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہو سکتی ہیں۔

جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والی بیماریاں معمولی نوعیت کی عام بیماریاں بھی ہوسکتی ہیں اور انتہائی مہلک بیماریاں بھی۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق 411 ملین لوگ کسی نہ کسی طرح سے جانوروں کی افزائش سے منسلک ہیں اور عموماً یہ افراد باقی افراد کی نسبت جانوروں کے جراثیموں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے ایک سروے کے مطابق61 فیصد جراثیم کسی نہ کسی طرح جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں اور تقریباً 75 فیصد نئی بیماریوں کا تعلق بھی حیوانات کے ساتھ ہوتا ہے۔

پاکستان میں زیادہ تر آبادی دیہاتوں میں آباد ہے، ظاہر ہے کہ ان کی اکثریت کا تعلق حیوانات کی افزائش سے ہوتا ہے۔ اس طرح جانوروں سے پھیلنے والی بیماریوں کا تناسب پاکستان میں عموماً زیادہ ہوتا ہے۔ ایڈز، سوائن فلو، برڈ فلو، ابولا وائرس، کانگو بخار، ریبیز وغیرہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والی چند بیماریاں ہیں۔ ایڈز بیسویں صدی کے اوائل میں انسانوں میں منتقل ہوئی۔ موجودہ ایڈز وائرس مختلف جینیاتی تبدیلیوں سے گزر کر مکمل طور پر تبدیل ہوچکا ہے جو کہ صرف انسانوں تک محدود ہوچکا ہے اور جانوروں کے ایڈز وائرس سے منفرد ہوچکا ہے۔ اسی طرح ٹی بی کے جراثیم بھی مختلف شکل میں جانوروں میں پائے جاتے ہیں جبکہ انسانوں میں مختلف شکل میں پائے جاتے ہیں۔ متاثرہ جانور کا گوشت اور دودھ استعمال کرنے سے یہ جراثیم انسانی جسم داخل ہو سکتا ہے اور انسان کو بیمار کرسکتا ہے۔

جینیاتی مشاہدے اور ریسرچ سے یہ اندازہ ہوا ہے کہ بہت سی بیماریاں جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوئی ہیں اور اب انسانوں کی بیماریاں سمجھی جاتی ہیں۔ خسرہ، لاکڑہ کاکڑہ، انفلوئنزا، ایڈز، خناق اور ٹی بی وغیرہ سب کسی نہ کسی دور میں جانوروں سے منتقل ہوئیں اور جینیاتی تبدیلیوں سے گزر کر اب انسانوں تک محدود ہو چکی ہیں۔

یہ بیماریاں مختلف طریقوں سے منتقل ہوتی ہیں۔ دو اہم ترین طریقے براہ راست منتقلی اور بذریعہ ویکٹر منتقلی ہیں۔ براہ راست منتقلی کا سبب انسان کا جانور سے براہ راست تعلق ہوتا ہے، زیادہ تر بیماریاں اسی طرح سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ریبیز (باؤلا پن) بنیادی طور پر جانوروں خصوصاً کتوں سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے اور اس کا جراثیم متاثرہ جانور کے تھوک سے انسان میں منتقل ہوتا ہے۔ اسی طرح اینتھراکس نامی بیماری متاثرہ جانوروں سے براہ راست انسانی جسم میں داخل ہو سکتی ہے۔ ویکٹر کے ذریعے منتقلی کی صورت میں جراثیم جانوروں سے کسی اور جاندار میں داخل ہوتے ہیں اور پھر انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ ویکٹر بیمار نہیں ہوتا بلکہ یہ صرف جراثیم منتقل کر نے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔

ایسی بیماریوں کے تدارک کے لئے ضروری ہے کہ خوراک کے لیے استعمال ہونے والی جانوروں سے حاصل کردہ اجزا مثلاً گوشت، دودھ اور انڈے وغیرہ حاصل کرتے ہوئے حفظانِ صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھاجائے، بیمار جانوروں کو کھانے کے لیے استعمال نہ کیا جائے، حفاظتی ٹیکے اور ویکسینیشن کا خصوصی خیال رکھا جائے، بیمار جانوروں کا علاج مستند ڈاکٹر سے کرائیں اور پالتو جانوروں کا وقتآ فوقتاً معائنہ کراتے رہیں۔ گھر کے کسی بھی فرد کے بیمار ہونے کی صورت میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں اور تجویز شدہ علاج پر سختی سے عمل کریں۔

January 13, 2019
by PharmaReviews
0 comments

تھیلیسیمیا، شادی سے پہلے ٹیسٹ ضروری ہے ؟

اللہ تعالیٰ نے زندگی کو قائم رکھنے کے لئے افزائش نسل کا نظام قائم کیا ہے

اللہ تعالیٰ نے زندگی کو قائم رکھنے کے لئے افزائش نسل کا نظام قائم کیا ہے اور تمام جاندار مخلوقات کے جوڑے پیدا فرمائے۔ ہر جاندار کی خصوصیات اس میں موجود جینیاتی مواد پر منحصر ہوتی ہیں جس طرح رنگ اور نسل والدین سے منتقل ہونے والی ایک خصوصیت ہے، اسی طرح کبھی کبھار والدین سے کچھ خاص جینیاتی نقائص بھی منتقل ہوتے ہیں۔ کروموسوم وہ موروثی مواد ہے جو دونوں والدین سے بچوں میں منتقل ہوتا ہے۔ کروموسوم پر موجود جین اس موروثی نظام کا خصوصی کوڈ سسٹم ہے۔ ہر بچے کا آدھا جینیاتی مواد ماں سے اور آدھا باپ سے منتقل ہوتا ہے۔ یہ جینیاتی مواد مستقبل میں بہت سی بیماریوں سے بچاؤ یا پھر ممکنہ شکار کے لئے پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ تھیلیسیمیا خون کی ایک ایسی بیماری ہے جس کا تعلق منتقل ہونے والے جینیاتی مواد پر منحصر ہے۔

تھیلیسیمیا ایک موروثی بیماری ہے جس میں خون کے سرخ خلیے ناکارہ ہوتے ہیں اور بننے کے فوراً بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً انسانی جسم میں خون کی شدید کمی ہو جاتی ہے۔ خون کے خلیے کے ٹوٹنے سے بننے والا مواد جسم میں جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے اور توڑ پھوڑ جن اعضا میں واقع ہوتی ہے ان پر شدید برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ بیماری ناقص مورثی مواد پر منحصر ہے لہذا جسم میں بننے والا نیا خون بھی پہلے کی طرح ناقص ہوتا ہے۔ زندگی کے پہلے سال میں ہی عموماً خون کی کمی شدت اختیار کر لیتی ہے اور خون لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

پاکستان میں ہر سال تھیلیسیمیاکے 5000 نئے مریضوں کی تشخیص ہوتی ہے۔ پاکستان میں تقریباً 5 سے 8 فیصد آبادی میں تھیلیسیمیا کا جین موجود ہے اور ایک اندازے کے مطابق 2015 ء میں پاکستان میں 16800 مریضوں کی موت تھیلیسیمیا کی وجہ سے واقع ہوئی۔ تھیلیسیمیا کے جین اگر دونوں والدین سے بچے میں منتقل ہوں تو بچے کو تھیلیسیمیا کا مرض لاحق ہوتا ہے اور اگر بچے میں تھیلیسیمیا کے جین صرف والدین سے کسی ایک سے منتقل ہو تو یہ مرض اگلی نسلوں میں ظاہر ہوتا ہے تاہم یہ بچہ نارمل یا تقریباً نارمل زندگی گزارتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں تقریباً 5 سے 8 فیصد آبادی میں تھیلیسیمیا کا جین موجود ہے اس لیے بہت زیادہ چانس ہے کہ دو ایسے افراد کی شادی ہوجائے جن دونوں میں تھیلیسیمیا کا جین چھپی ہوئی حالت میں موجود ہو۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ اگر دونوں والدین سے بچے میں تھیلیسیمیا کا جین منتقل ہو جائے تو بچہ تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا ہو گا اور یہ موروثی بیماری ساری زندگی اس بچے کے ساتھ ساتھ رہے گی۔

اگر شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کرا لیا جائے تو پہلے ہی سے اندازہ ہو گا کہ مستقبل میں ان والدین کے بچوں میں تھیلیسیمیا کا مرض لاحق ہونے کا امکان ہے یا نہیں۔ اگر تھیلیسیمیا کا جین موجود ہو اور شادی ہو تو پھر جب ماں امید سے ہو تو شروع میں ٹیسٹ سے پتا چلایا جا سکتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں موجود بچے کو تھیلیسیمیا کا مرض لاحق ہے یا نہیں۔ اگر تھیلیسیمیا کا مرض لاحق ہو تو شروع میں بچے کو پیدائش سے روکا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں علمائے کرام کا فتویٰ موجود ہے کہ شروع کے کچھ دنوں میں ایسے سائنسی علوم کی بنیاد پر حمل ضائع کیا جا سکتا ہے تاہم یہ مسئلہ علما کے ساتھ انفرادی طور پر ڈسکس کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں تقریباً ہر جوڑے کو شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کروا لینا چاہیے۔ خیبر پختون خواہ اسمبلی نے پچھلے دور حکومت میں بل پاس کیا تھا کہ ہر شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کروانا ضروری ہے۔ کم از کم ایسے خاندان جن میں ایک بچہ تھیلیسیمیا سے پیدا ہوا ہو ان میں شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ بہت ہی ضروری ہے۔ اگرچہ تمام بیماریاں اللہ تعالیٰ کے فیصلے سے ہی ہوتی ہیں تاہم انسان کو علم بھی اللہ نے انسانیت کی خدمت اور فلاح و بہبود کے لئے سکھایا ہے اور موجود علم سے فائدہ حاصل نہ کرنا بھی نعمتوں سے ناشکری ہے۔ اللہ ہم سب کو صحت و تندرستی عطا فرمائے آمین۔

January 13, 2019
by PharmaReviews
0 comments

صرف دو ماہ میں بالوں کے سب مسائل حل ہوسکتے ہیں

بالوں کی بڑھوتری کے لیے سلفر،زنک،آئیوڈین اور کلورین کا ہمارے خون میں ہونا لازم ہے

کچھ شک نہیں کہ فی زمانہ بالوں کے مسائل خواتین اور مرد حضرات میں شدت اختیار کر چکے ہیں۔ قبل از وقت بالوں کا سفید ہونا،بے رونقی،دو شاخہ اور جھڑنے کا عمل اس قدر شدید ہے کہ مرد حضرات وخواتین کوشش کے باوجود بھی ان مسائل سے پیچھا چھڑانے میں ناکام ہیں۔

ہمارے بال ہماری خوبصورت شخصیت کا ایک بنیادی اور لازمی حصہ ہیں۔یہ بھی دیگر جسمانی اعضا ء کی طر ح ہماری بھرپور توجہ،بہتر غذا اور سازگار ماحول کا تقاضا کرتے ہیں۔عام مشاہدے کی بات ہے کہ آج بھی ایسے افراد جو روزانہ دو بار نہاتے ہیں،بالوں میں تیل لگاتے اور انہیں گرد وغبار سے محفوظ رکھتے ہیں، ان کے بال دوسروں کی نسبت محفوظ ہیں۔ہمارے بالوں کی سادہ سی مثال پودے کی ہے۔ایک ہی طرح کی زمین میں لگے پودے نگہداشت،آب و ہوا اور خوراک کے فرق سے مختلف حالت میں دکھائی دیتے ہیں۔

جن پودوں کو بر وقت پانی،کھاد اور عمدہ نگہداشت میسر آتی ہے وہ دوسروں کی نسبت محفوظ،مضبوط ،شاداب اور توانا ہوتے ہیں۔اس کے بر عکس ویسی ہی زمین میں لگے پودے مناسب خوراک،ماحول اور بہتر نگہداشت نہ ہونے کی وجہ سے کمزور،مرجھائے ہوئے اوربے جان سے دکھائی دیتے ہیں۔یہی معاملہ ہمارے بالوں سے پیش آتا ہے۔بالوں کی سیاہ رنگت قائم رکھنے کے لیے فولاد کی مخصوص مقدار کا ہماری خوراک میں شامل ہونا لازمی ہے۔بالوں کی مضبوطی کے لیے کیراٹینین اور میلا نین جیسے عناصر کی مقدار کا جسم میں پورا ہونا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔

بالوں کی بڑھوتری کے لیے سلفر،زنک،آئیوڈین اور کلورین وغیرہ کی مطلوبہ مقداروں کا ہمارے خون میں پایا جانا بھی لازمی ہے۔ان سب سے زیادہ اہم آکسیجن کی وافر مقدار کا خون میں ہونا اور سر کی طرف دوران خون کی روانی کا متناسب ہونا بھی بالوں کی حفاظت،نشو ونما اور مضبوطی کے لیے ضروری مانا جاتا ہے۔اب آپ خود غور فرما لیں کہ ہماری خوراک کس قدر متوازن ہے؟کیا کبھی ہم نے اپنی خوراک لیتے وقت اس پہلو کو بھی ذہن میں رکھا ہے؟ہماری کھانے پینے کی روٹین تو بس پیٹ بھرنا،لذت حاصل کرنا اور مزے کا حصول رہ گیا ہے۔بالوں کے ہر طرح کے مسائل سے بچنے کا واحد حل معیاری،عمدہ،متوازن اور غذائیت سے بھرپور غذا کھانے میں پوشیدہ ہے۔آج سے ہی اپنی غذا کو جانچئے،مفید اور مضر کے فرق کو سمجھئے اور بھلے تھوڑا کھائے لیکن عمدہ اور معیاری خوراک کا انتخاب کیجئے۔

کیلشیم،میگنیشم،کلورین،زنک،سلفر،کاپر اور فولادی غذائی اجزاء بکثرت استعمال کریں۔دودھ،مکھن، دہی، دیسی گھی،پالک، مچھلی، انڈہ، لہسن،بند گوبھی، کیلا، آلو، شکر قندی،ادرک، مرچ سیاہ، انگور، سیب، انار،لوبیہ، سیاہ و سفید چنے ،جو کا دلیہ، گاجر، مسمی،مربہ ہرڈ، مربہ آملہ،مربہ بہی ،مغز بادام،مغز اخروٹ،سونف اور اسی طرح کے دوسرے پھل اور سبزیاں وافر مقدار میں استعمال کریں۔ آپ دیکھیں گے کہ دو تین مہینوں میں ہی نہ صرف بالوں کے مسائل حل ہونا شروع ہو گئے ہیں بلکہ کئی ایک دیگر عوارض بھی آپ کا پیچھا چھوڑ جائیں گے۔

علاج کے سلسلے میں ایسے تمام افراد جن کے بال خشکی اور سکری کی وجہ سے دوشاخہ ہو کر بے رونق ہوئے جارہے ہوں تو وہ درج ذیل گھریلو ترکیب آزماکر خشکی اور سکری سے پیچھا چھڑا سکتے ہیں۔برگ حنا100 گرام،خشک آملے100 گرام،کلونجی 100 گرام اور دال ماش 300 گرام باریک پیس کر 2 سے 3 چمچ دہی میں ملا کر بالوں پر جڑوں تک لیپ کریں۔

2 گھنٹے لگے رہنے کے بعد بال دھو ڈالیں۔اسی طرح ایسے افراد جن کے بال قبل از وقت سفید ی کی طرف مائل اور جھڑرہے ہیں وہ درج ذیل تیلوں کے مرکب کا استعمال کریں۔ناریل کا تیل 250 ملی لیٹر،بادا م روغن250ملی لیٹر،روغن ارنڈ 250 ملی لیٹر اور روغن با بونہ 250 ملی لیٹر لے کر ان کے برابر وزن سرسوں کا تیل شامل کر لیں۔دس دن اس تیل مرکب کودھوپ میں رکھیں اور وقفے وقفے سے ہلاتے رہیں۔دس دن کے بعد بال دھو کر سر میں یہ تیل لگا کر انگلی کے پوروں سے مسلسل 15 منٹ مساج کریں۔دھیان رہے جب میٹا بولزم سست یا خراب ہو تو بھی استعمال کی جانے والی غذا ہضم ہو کر جزو بدن نہیں بن پاتی ،یوں غذائی قلت کے نتیجے میں بھی بالوں کے مسائل پریشان کرنے لگتے ہیں۔

میٹا بولزم کی درستگی اور نظام ہضم کی اصلاح کے لیے زیرہ سفید، سونف اور الائچی خرد کا قہوہ دن میں ایک بار ضرور استعمال کریں۔ صبح نہار منہ تقریباََ نصف گھنٹہ تیز قدموں کی سیر اور ورزش کو اپنے معمول کا حصہ بنا لیں۔ حسد، بغل، بخض،غصہ،نفرت ،مایوسی، منفی انداز فکراور تکبر جیسے قبیح جذبات بھی دماغی صلاحیتوں کو مانند کر کے بالوں کے مسائل کو بڑھاوا دینے کا سبب بن سکتے ہیں۔ مثبت سوچیں،امید، حوصلہ، رواداری، برداشت،محبت،عاجزی اور ایثار کے جذبات سے ذہنی و قلبی آسودگی حاصل ہوتی ہے ۔یقین مانیں ذہنی و قلبی آسودگی ہی تمام مسائل کا واحد اور بہترین حل ہے۔ ہماری معروضات پر عمل پیرا ہو کر دیکھیں بفضلِ خدا بہت جلد بالوں کے موروثی مسائل چھوڑ کر باقی سب سے نجات میسر آئے گی۔

January 13, 2019
by PharmaReviews
0 comments

دیوہیکل وھیل کو کھانے والی وھیل دریافت

بیسیلو سارس کی ایک فرضی تصویر جس میں اس کے خدوخال دیکھے جاسکتے ہیں  (فوٹو: انٹرنیٹ)

برلن: اب سے کروڑوں برس پہلے ہمارے قدیم سمندروں میں ایک ایسی مخلوق کا راج تھا جو وھیل کی جد تھی اور اس کی دریافت نے ایک دنیا کو حیران کردیا تھا۔ اسے ماہرین نے بیسیلو سارس کا نام دیا تھا تاہم اب معلوم ہوا ہے کہ یہ وھیل دوسری وھیلوں کو نوالہ بنایا کرتی تھی۔

سال 2010ء میں دریافت ہونے والی قدیم وھیل، بیسیلو سارس آئی سِس کی باقیات مصر سے ملی تھیں۔ اس کی لمبائی 18 میٹر تھی جو آج کی اور کا وھیل سے تین گنا لمبی تھی۔ تین کروڑ 80 لاکھ سال قبل اس کے آثار ملتے ہیں جو 3 کروڑ 40 لاکھ سال تک برقرار رہے یعنی اس کا عہد لگ بھگ 40 لاکھ سال رہا تھا۔

بیسیلو سارس بحر اوقیانوس میں موجود تھی اور اس کے زیادہ تر فاسل (رکاز) شمالی افریقا بالخصوص مصر سے ملے ہیں۔ اسی مناسبت سے مصر کے جس علاقے سے اس کی ہڈیاں ملی ہیں اسے ’وادیِ ہیٹاں‘ یعنی وھیل وادی کا نام دیا گیا ہے اور یہ دنیا بھر میں اسی نام سے مشہور ہے۔

حال ہی میں جرمن ماہرین نے یہ دریافت کیا ہے کہ یہ وھیل دوسری چھوٹی وھیل کو بآسانی اپنا نوالہ بناتی تھی اور غذائی زنجیر میں سب سے اوپر تھی۔ برلن کے میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں پروفیسر وینجا واس اور ان کے ساتھیوں نے نوٹ کیا کہ بیسیلو سارس وھیل کی پسلی کے قریب سے بہت سی ہڈیاں ملی ہیں جو غالباً اس کے پیٹ میں موجود تھیں۔

یہ تمام ہڈیاں چھوٹی وھیلوں کی ہیں اور ان پر کاٹنے اور چبانے کے نشانات بھی موجود ہیں۔ نوالا بننے والی وھیل کی کھوپڑی پر دانتوں کے ایسے نشانات ہیں جو ہوبہو بیسیلو سارس وھیل کے دانتوں سے مشابہہ ہیں۔

اس کا مطلب ہوا کہ یہ وھیل اپنے چھوٹے ساتھیوں کو کھایا کرتی تھی اور شارک کا بھی شکار کیا کرتی تھی۔ اس طرح پہلی مرتبہ ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ ماضی میں عظیم الجثہ وھیل دوسری وھیل اور شارک کو کھایا کرتی تھی۔

January 13, 2019
by PharmaReviews
0 comments

شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کے لیے ’ پروٹین ویفر‘ تیار

کمبوڈیا میں مچھلی کے ویفر کو بچوں میں شدید غذائی قلت دور کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ تصویر بشکریہ یونیسیف کمبوڈیا

کمبوڈیا: پاکستان سمیت دنیا بھرمیں غذائی قلت (میل نیوٹریشن) کے شکار لاکھوں بچے اگر خوراک سے محروم رہیں تو نہ صرف ان کی نشوونما سست ہوجاتی ہے بلکہ ذہنی صلاحیت بھی ماند پڑتی جاتی ہے۔ اس کے علاج کے طور پر کمبوڈیا میں مچھلی کے پروٹین والے ویفر کے بہت اچھے نتائج مرتب ہوئے ہیں اور یہ تجربات اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کے تحت کئے جارہے ہیں۔

گزشتہ ماہ کی 17 تاریخ کو ابتدائی طور پر اسے کمبوڈیا میں متعارف کرایا گیا ہے جہاں پہلے مرحلے میں شدید غذائی کمی کے 25 ہزار بچوں کا علاج کرایا جائے گا اور اسے بعد مشریقی ایشیا اور دیگر ممالک تک پھیلاکر لگ بھگ 50 لاکھ بچوں تک اسے پہنچایا جائے گا۔ اس ویفر کو نیوٹرِکس کا نام دیا گیا ہے۔

کمبوڈیا میں یونیسیف کے نمائیندے آرنود لیلاؤ نے مچھلی کے پروٹین والے ویفر کو غذائی قلت اور بھوک کا علاج قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسے میانمار کے بچوں کو بھی استعمال کرایا جائے گا۔ یہ ویفر مہنگے سپلیمنٹ مثلاً دودھ ، مونگ پھلی اور دیگر اجزا کا سستا متبادل ثابت ہوسکتا ہے۔

بچوں میں غذائی قلت انہیں موت کے دہانے تک لے جاتی ہے کیونکہ غذائی کمی مدافعتی عمل کمزور کرتی ہے اور یوں ایسے بچوں میں دیگر صحتمند بچوں کے مقابلے میں قبل ازوقت موت کا خطرہ نو گنا بڑھ جاتا ہے۔ ایسے بچوں کےپٹھے اور عضلات گھلتے رہتے ہیں اور بسا اوقات انہیں ہنگامی مدد درکار ہوتی ہے۔

ایشیا بحرالکاہل کے علاقوں میں مچھلی عام پائی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مقامی سطح پر موجود مچھلیوں کے ویفر بچوں میں غذائی قلت اور ضروری پروٹین کی کمی دور کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

نیوٹرِکس کی تیاری میں پانچ سال کی مسلسل محنت شامل ہے اور اب اسے بطور علاج استعمال کیا جائے گا۔ ویفرز کی تیاری میں یونیسیف کے ماہرین کے ساتھ ساتھ کوپن ہیگن یونیورسٹی اور ڈنمارک کے غذائی ادارے نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی تیاری میں بِل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے بھی مالی تعاون کیا ہے۔

فش ویفر کی تیاری کے لیے پانچ آبادیوں میں ماہی گیروں کو مچھلی پکڑنے اور اس کے گوشت سے ویفر بنانے کی تربیت دی گئی ہے۔

January 13, 2019
by PharmaReviews
0 comments

صرف چہرہ دیکھ کر جینیاتی امراض کی شناخت کرنے والا نظام تیار

یہ سافٹ ویئر صرف چہرہ دیکھ کر نایاب جینیاتی امراض کی شناخت اور پیشگوئی کرسکتا ہے (فوٹو: بشکریہ ایف ڈی این اے)

وسٹن: بہت سی کمیاب جینیاتی بیماریوں کے چہرے پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور انہیں پہچاننا مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ مرض کئی صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے تاہم نیورل نیٹ ورک استعمال کرکے صرف چہرہ دیکھ کر موروثی امراض کی شناخت کرنے والا ایک انقلابی نظام تیار کرلیا گیا ہے۔

بوسٹن میں واقع ایک قدرے نئی کمپنی ایف ڈی این اے سے وابستہ یارون گرووچ اور ان کے ساتھیوں نے ایک نظام بنایا ہے وہ مجموعی طور پر پورا چہرہ دیکھتا ہے اور اس کے بعد مصنوعی ذہانت ( اے آئی) اور نیورل نیٹ ورک کی مدد سے پانچ یا دس امراض کی فہرست دیتا ہے جس میں ممکنہ طور پر کسی ایک میں یہ مریض مبتلا ہوسکتا ہے۔

تربیت یافتہ نیورل نیٹ ورک میں 17 ہزار ایسی تصاویر ہیں جو کسی نہ کسی ایسے مریض سے تعلق رکھتی ہیں جو موروثی مرض کے شکار ہوسکتے ہیں۔ اس طرح یہ سسٹم 200 جینیاتی امراض یا عارضوں کی شناخت کرسکتا ہے۔ اس کے بعد مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے اس مرض کو جاننے میں مدد لی جاتی ہے۔ کمپنی کے مطابق یہ سسٹم صرف مریض کی تصویر دیکھ کر 91 فیصد درستی کے ساتھ مرض کی پیشگوئی کرسکتا ہے۔

بسا اوقات یہ نظام صرف 500 تصاویر پڑھنے کے بعد ہی اپنا فیصلہ سنادیتا ہے۔ اگرچہ اب بھی اس میں بہتری کی بہت گنجائش ہے تاہم اسے مزید بہتر بنانے کی کوشش کی جائے گی لیکن اب بھی یہ انسانی آنکھ اور صلاحیت سے بہت آگے ہیں۔

ناقدین کے مطابق اگر یہ نظام کاروباری کمپنیوں کے ہاتھ لگ جائے تو وہ اسے تفریق اور امتیاز کے لیے استعمال کریں گی جس سے معاشرے میں ناانصافی بڑھے گی۔ اس کا جواب دیتے ہوئے ایف ڈی این اے نے کہا ہے کہ یہ نظام صرف ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کو ہی فروخت کیا جائے گا۔

January 13, 2019
by PharmaReviews
0 comments

دورانِ ورزش جسم سے خارج ہونے والا ہارمون الزائیمر سے بچاتا ہے

جسمانی ورزش سے جسم میں آئریسن نامی ہارمون بڑھتا ہے جو الزائیمر سمیت کئی امراض سے بچاتا ہے۔ فوٹو: فائل

ریو ڈی جنیریو: ہم جانتے ہیں کہ دنیا کوئی غذا یا دوا ورزش کی جگہ نہیں لے سکتی اور اب ماہرین نے ورزش کی ایک اور زبردست اہمیت بیان کردی ہے کہ دورانِ کسرت جسم ایک ایسا ہارمون خارج کرتا ہے جو کئی دماغی بیماریوں کی جڑ بیماری الزائیمر کو لاحق ہونے سے روکتا ہے۔

برازیل میں واقع فیڈرل یونیورسٹی آف ریو ڈی جنیرو سے وابستہ فرنینا ڈی فیلِکا کے مطابق جب جب ہم باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں تو جسم ایک ہارمون ’آئریسن‘ کا افراز کرتا ہے جو پٹھوں کے عضلات سے خارج ہوکر خون میں شامل ہوتا رہتا ہے۔ ورزش کرنے والے مردوخواتین میں یہ ہارمون زیادہ جبکہ ورزش سے جی چرانے والوں میں کم پایا جاتا ہے۔

ماہرین نے اس ہارمون کو چوہوں پر آزمانے کی کوشش کی تو حیرت انگیز انکشافات ہوئے۔ جیسے ہی چوہوں میں آئریسن کی کمی کی گئی ان کی یادداشت متاثر ہوئی اور وہ سیکھنے اور سمجھنے میں بھی مشکلات محسوس کرنے لگے۔ اگلے مرحلےمیں ان کے اندر آئریسن کی مقدار بحال کی گئی تو چوہوں کی منفی کیفیت جاتی رہی۔ اگلے مرحلے میں ورزش کرنے والے چوہوں میں الزائیمر کی کیفیت پیدا کی گئی مگر آئریسن کے سگنل کو آگے بڑھنے سے روک دیا گیا اور نتیجے میں ان کے دماغ کو ورزش سے ہونے والے فائدے بھی غائب ہوگئے۔
برطانیہ میں الزائیمر کی ماہر ڈاکٹر روزا سانچو نے کہا کہ خصوصاً عمر رسیدہ افراد میں جسمانی مشقت اور ورزش دماغ کو بہتر بناتی ہے اور اس تحقیق سے ورزش کے حیاتیاتی اثرات واضح ہوئے ہیں۔

ماہرین نے کہا ہے کہ باقاعدگی سے ورزش آپ کو مستقبل میں کئی دماغی عارضوں سے بچاسکتی ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ الزائیمر کے مریضوں کو ایسی دوائیں دی جاتی ہیں جو جسم میں آئریسن کی پیداوار اور فراہمی بڑھاتی ہیں۔

اگرچہ یہ تحقیق چوہوں پر کی گئی ہے تاہم انسانوں میں جسمانی ورزش اور دماغی فوائد کے ناقابلِ تردید ثبوت سامنے آچکے ہیں اور اسی بنا پر ماہرین ورزش کا مشورہ دے رہے ہیں۔

January 13, 2019
by PharmaReviews
0 comments

کمپیوٹرپرکام کے دوران گردن کو سیدھا نہ رکھنے کے شدید نقصانات

تصویر میں دو رضاکار اس پوزیشن کے ساتھ اسکرین کو دیکھ رہے ہیں جس سے مسائل پیدا ہورہے ہیں (فوٹو: سان فرانسسکو اسٹیٹ یونیورسٹی)

سان فرانسسكو: کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ پر خاص انداز سے نظر جمانے کا عمل گردن، کندھوں اور مہروں کے درد کی وجہ بن رہا ہے بظاہر یہ بے ضرر انداز ہی غنودگی، عدم توجہ، دردِ سر، پٹھوں کے تناؤ اور مہروں میں مستقل بگاڑ کی وجہ بھی بن رہا ہے۔

سان فرانسسکو اسٹیٹ یونیوررسٹی میں صحت کے پروفیسر ایرک پیپر اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ جب آپ سیدھے اور کھڑے ہوکر اپنی گردن کو ستواں رکھتے ہیں تو آپ کا جسم آپ کے سر اور گردن کا وزن سہار لیتا ہے جو 12 پونڈ تک ہوسکتا ہے۔

جیسے ہی آپ (اوپر تصویر کے مطابق) اپنے چہرے کو اسکرین کے قریب لاتے ہیں تو آپ کا سر 45 درجے زاویے تک چلا جاتا ہے اب گردن اور سر کا بوجھ بڑھ کر 45 پونڈ تک جاپہنچتا ہے اور لوگ، گردن، کاندھوں، حرام مغز اور دردِ سر کی شکایت کرنے لگتے ہیں یہاں تک کہ گردن گھمانا بھی مشکل ہوجاتا ہے اور کمر کے درد کا عارضہ بھی لاحق ہوجاتا ہے۔

اس کے لیے ماہرین نے کئی طلبا و طالبات کا سروے کیا جس میں کمپیوٹراستعمال کرتے ہوئے سر اور گردن کی پوزیشن کا جائزہ لیا گیا۔ پہلے 87 افراد سے کہا گیا کہ وہ سر کو گردن کی سیدھ میں رکھیں اور پھر گردن دائیں اور بائیں گھمائیں اور 92 فیصد افراد نے اپنی گردن انتہائی حد تک گھمائی۔

اب طلبا سے کہا گیا کہ وہ چہرے کو گردن کی سیدھ سے آگے کی جانب بڑھائیں اور ان سے کہا کہ وہ اسی انداز میں رہتے ہوئے اپنی گردن دائیں اور بائیں گھمائیں۔ صرف 30 سیکنڈ بعد ہی 98 فیصد رضاکاروں نے گردن، سر، یا آنکھوں میں درد اور تناؤ کی شکایت کی۔

بعد ازاں الیکٹرو مایوگرافی اور دیگر آلات کے ذریعے دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ سر آگے کرنے کی پوزیشن میں خاص ٹراپیزئیس پٹھوں پر تناؤ بہت بڑھ گیا تھا۔ اسی بنا پر ماہرین کہہ رہے کہ آپ کو کمپیوٹر کے سامنے بیٹھنے کا اندازہ نہیں ہوتا اور جب بھی کاندھوں، سر یا گردن میں درد محسوس ہو تو فوری طور پر اپنے بیٹھنے گردن اور سر کی پوزیشن کا جائزہ لیں۔

ماہرین نے اس ضمن میں کہا ہے کہ جب بھی کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھیں تو سمجھیں کہ چھت سے ایک ان دیکھا دھاگا بندھا ہے جس کا اگلا سرا آپ کے سر سے جڑا ہے۔ اس طرح گردن سیدھی رکھ کر کئی مسائل سے بچا جاسکتا ہے۔

January 8, 2019 by PharmaReviews

 

mail


Warning: Undefined variable $total_images in H:\root\home\tahanazir-001\www\pharmareview\public_html\wp-content\themes\yoko\content-gallery.php on line 45

Warning: Undefined variable $total_images in H:\root\home\tahanazir-001\www\pharmareview\public_html\wp-content\themes\yoko\content-gallery.php on line 47
This gallery contains 0 photos

January 1, 2019
by PharmaReviews
0 comments

The Sade demise of Muhammad Iqbal: A skilled drug expert, great personality, honest officer and brave man.

49094884_786279701724335_1532308215109255168_n

A highly skilled pharmacist Muhammad Iqbal passed away today in Islamabad, Pakistan (inna-lillahi-wa-inna-ilayhi-rajiun).

inna-lillahi-wa-inna-ilayhi-rajiun

Prof. Dr. Bashir Ahmad, Riphah Institute of Pharmaceutical Sciences (Lahore), Prof. Dr. Nadeem Irfan Bukhari -Principal, University College of Pharmacy, University of the Punjab (UCP-PU), Prof. Dr. Khalid Hussain Dean UCP-PU, Mr. Abdul Aleem President Pharmacist Federation (Pakistan), Mr. Mushtaq Chaudhay President Pakistan Pharmacist Association (PPA), Mr. Ihsan Khan General Secretary PPA – KPK, Dr. Taha Nazir Ex Preside Pharmacist Federation (Pakistan), Muhammad Shamoon Ch. Ex-Secretary Punjab Pharmacy Council, Prof. Dr. Ghulam Yasin Ex-Dean Faculty of Social Sciences, University of Sargodha and Prof. Dr. Khalid Madni President Tanzeem e Asatiza Distt. Sargodha  has condoled the sad demise and share deep sorrow with family of Muhammad Iqbal.

Originally M. Iqbal belongs to the Quetta Baluchistan and has worked with Pharmaceutical Industrial Unit, University of Sargodha, Pakistan. He has obtained the drug manufacturing license from Drug Regulatory Authority (DRAP) Pakistan in 2017.

The major expertises of Muhammad Iqbal were drug designing, formulation, drug manufacturing and drug jurisprudence. Moreover, he was excellent drug expert with extra ordinary skills of social and public relations. He was honest, brave and hardworking person.

Additionally, he has effectively struggled against corruption, dishonesties and irregularities. Because he believed that the industrial unit may not be successful without honest and dedicated team. But, unluckily the existing dishonest, corrupt and incompetent Dean of pharmacy, University of Sargodha has successfully conspirated and removed him from his service. So, he filed the appeal to the Syndicate of University to re-instate his employment. That was declined by worthy vice chancellor Dr. Ishtiaq Ahmad. Afterward he filed application in the office of Chancellor and/ or Governor Punjab Ch. Muhammad Sarwer. That is still pending, waiting for the decision of worthy governor. Mr. M. Iqbal was a courageous, competent and determined pharmacist. He was ambitious to file his petition in high court and/ or Supreme Court of Pakistan. Because he has never ever shown his intention to surrender and stop working against the corruption. He firmly believed that he has been illegally and unethically removed from his employment. The only reason of his termination was “exposing the corruption and dishonesties of the Dean pharmacy, University of Sargodha”.

So, we declared our friend as “Hero of Pharmacy”. He is our role model and we shall not forget his contribution for pharmacy profession, pharmacist community and academic staff of the pharmaceutical institutions in Pakistan. We heartedly acknowledged his services, inputs and contributions.

May God the departed soul rest in peace and Jannah.

May Allah grant Sabr and courage to the family of Br. Iqbal to bear this loss.