December 30, 2018
by PharmaReviews
0 comments

موسم سرما میں جلدی مسائل سے کیسے بچا جائے؟

 پھوڑے اور پھنسیاں نکلنے کی سب سے بڑی وجہ انسانی جسم کے جلدی مساموں کا بند ہونا ہے

 پھوڑے اور پھنسیاں نکلنے کی سب سے بڑی وجہ انسانی جسم کے جلدی مساموں کا بند ہونا ہے

مختلف بیماریاں بدن انسانی پر موسم کی مناسبت سے اثرات بھی مختلف چھوڑتی ہیں۔خارش ہی کو لے لیں، گرمی کے موسم میں ہونے والی خارش اور سردی کے موسم کی خارش کے اثرات اور اسباب مختلف ہوتے ہیں۔عام طور پر دیکھاگیاہے کہ سردی کے موسم میں پوشیدہ جگہوں جیسے رانیں، بغلیں اور کنج رانیں اکثر  پھوڑے اور پھنسیوں کی زد میں رہتی ہیں۔آج کل ملنے والوں کی اکثریت اسی شکایت کے ساتھ مطب آرہی ہے۔ مذکورہ بالا تمام جگہوں پر پھوڑے اور پھنسیاں نکلنے کی سب سے بڑی وجہ انسانی جسم کے جلدی مساموں کا بند ہونا ہے۔

مسام بند ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ سردی کی شدت کے ڈر سے اکثر لوگ نہانے، دھونے میں سستی کرجاتے ہیں۔دوسری وجہ بند جگہوں پر رہنا بھی ہے یعنی سردی سے بچاؤ کے لیے ہم اکثر گھروں، گاڑیوں اور دفتروں تک محدود ہوجاتے ہیں،تیسری وجہ مرغن غذاؤں کا وافر استعمال بھی بنتا ہے۔ چوتھی وجہ واش روم جانے سے بچنے کی غرض سے پینے کے پانی کا کم سے کم استعمال ہوتا ہے اور سب سے بڑی وجہ مسلسل گرم لباس پہنے رکھنا ہے جس سے جسمانی مساموں کو مناسب آکسیجن کی فراہمی کا عمل رک جاتا ہے۔

جسمانی مساموں کو باقاعدہ اور مطلوبہ آکسیجن کی دستیابی میں تعطل آجانے سے جلد پر خشکی کا غلبہ ظاہر ہونے لگتا ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ مساموں کی بندش کے باعث جلدی خلیات میں فاضل رطوبات کے جمع کے رد عمل کے طور پر جلدی مسام انہیں خارج کرنے کے لیے پھوڑوں اور پھنسیوں کے نکلنے کا سہارالیتے ہیں۔علاوہ ازیں انسانی بدن پہ خارش کا حملہ ہونے کی کئی ایک وجوہات ہوسکتی ہیں۔ خون کی خرابی،فنگس،ایگزیما،برص،چنبل،دھدھر، دائمی قبض،ذیابیطس،قوت مدافعت کی کمی،کسی دوا یا غذا کا رد عمل اور کسی دوسرے مرض کی وجہ سے بھی خارش کا حملہ ہو سکتا ہے۔

سب سے پہلے اپنے مرض کا سبب اور وجہ تلاش کریں۔اگر کسی بیماری کی وجہ سے ایسا ہے تو بیماری کا علاج کروائیں ۔بیماری کا خاتمہ ہوتے ہی خارش خود بخود ختم ہو جائے گی۔اگر کسی غذا یا دوا کے رد عمل کی وجہ سے خارش ہے تو اپنے معالج سے مل کر روز مرہ کھائے جانے والی غذاؤں اور دواؤں پہ نظر ثانی کروائیں۔ انشا ء اللہ خارش سے نجات مل جائے گی۔

جن حضرات کو جلدی مسام بند ہونے، خشکی بڑھنے ،کم نہانے ، متواتر مرغن غذائیں استعمال کرنے اور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے پھوڑوں اور پھنسیوں کا سامنا ہو تو انہیں چاہیے کہ سب سے پہلے پورے بدن پر اچھی طرح بادام روغن کا مساج کرنے کے بعد پانچ کلو گرام پانی میں 50 ملی گرام کیسٹر آئل اور دو کھانے کے چمچ نمک پکاکر پورے بدن کو بھاپ دیں۔ بھاپ لینے کے ایک گھنٹہ تک گرم حمام میں ہی رہیں۔ بعد ازاں اسی ابلے ہوئے پانی سے نہا کر کھلی ہوا میں آنے سے دور رہیں۔ایسا ایک دو بار کرنے سے ہی بدن کے مسام کھل کر اس سے جڑے عوارض سے چھٹکارا مل جائے گا۔

خون کی خرابی ہونے سے پیدا شدہ خارش سے نجات حاصل کرنے کے لیے چرائتہ بہترین نیچرل ریمڈی ہے ۔چرائتہ دو قسم کا ہوتا ہے،میٹھا اور کڑوا جسے طبی زبان میں چرائتہ شیریں اور چرائتہ تلخ کہا جاتا ہے۔آپ چرائتہ شیریں ایک گرام رات کو پانی میں بھگو کر نہار منہ پانی پی لیا کریں۔صندل سرخ،شاہترہ اور دھماسہ ہم وزن پیس کر آدھی چمچی رات کو بھگو کر صبح نہار منہ پینا بھی جلدی مسائل سے نجات دلاتا ہے۔ دھیان رہے جس برتن میں چرائتہ بھگویا جائے وہ سلور،سٹیل اور پلاسٹک کا نہ ہو بلکہ برتن مٹی،شیشہ اور چینی کا ہونا چاہیے۔ بیرونی استعمال کے لیے رتن جوت10 گرام اور  25 گرام کٹی ہوئی پیاز کو دیسی گھی میں جلا کر جلد پر لگائیں۔بفضلِ خدا ایک دو بار لگانے سے ہی افاقہ ہوجائے گا۔

دواساز اداروں کی طرف سے خو ن صاٖ ف کر نے والے طبی مرکبات صافی، مصفین،شربت مصفی، سارسپریلا،اطریفل شاہترہ، معجون عشبہ،عرقِ عشبہ، عرقِ شاہترہ اور عرق مصفی بسہولت مارکیٹ سے دستیاب ہیں۔ طبی معالج سے مشورے کے بعد بتائی گئی ہدایات کے مطابق دوا کا ستعمال کرنے سے جلدی مسائل سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ پانی بھلے ابال کر ہلکا نیم گرم ہی ہو کم از کم چار سے چھ گلاس بہر صورت روزانہ پینے کا معمول بنائیں۔ہلکے نیم گرم پانی سے روزانہ لازمی نہانا شروع کردیں۔جن حضرات کو خارش،خون کی خرابی یا بدن پر پھوڑے پھنسیاں نکلنے کا عارضہ لاحق ہو انہیں پانی میں نیم یا بیری کے پتے ابال کر یا ڈیٹول کے چند قطرے ملا کر نہانا چاہیے۔اسی طرح خارش اور پھوڑے پھنسیوں والے افراد کو ہیٹر وغیرہ سے بھی مکمل دور رہنا چاہیے۔

گھر اور دفتر کی چار دیواری میں گرم لباس کی بجائے بدن پر نرم اور سادہ لباس ہی پہنیں۔البتہ نرم لباس کے اوپر گرم کوٹ، شال اور جیکٹ وغیرہ پہننے میں کوئی قبا حت نہیں ۔جو لوگ خارش کا شکار قبض کی وجہ سے ہوں انہیں چاہیے کہ روزانہ رات سوتے وقت ایک چمچ روغن بادام اور ایک چمچ اطریفل زمانی نیم گرم دودھ کے ایک کپ میں ملا کر ضرور پیا کریں۔بادام روغن کے دو سے تین قطرے ناف میں اور دو دو قطرے کانوں میں ڈالنے کو معمول بنائیں۔اس عمل سے نہ صرف قبض دور ہوگی بلکہ پورے بدن کی خشکی کا خاتمہ ہوجائے گا۔

جب تک جلدی مسائل سے مکمل پیچھا نہ چھوٹ جائے خشک میوہ جات، چکن،فاسٹ فوڈز، کافی، قہوہ زیادہ چائے، تیز نمک،سرخ مرچ،تیز مصا لحہ جات ،انڈہ،گوشت،مچھلی،چاول۔بیگن،تلی اور بھنی ہوئی غذاؤں سے پرہیز کریں۔علی الصبح تازہ آب وہوا میں تیز قدموں کی لمبی سانسوں کے ساتھ سیر ضرور کریں تاکہ بدن کو فریش آکسیجن کی وافر مقدار میسر آئے۔صبح کی سیر ہمیشہ سر سبز اور ہرے بھرے ماحول میں کی جانی چاہیے ۔ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ لوگ بڑی شاہراؤں کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے ہوتے ہیں جو کہ اصولِ صحت کے سرا سر منافی عمل ہے۔ سڑکوں پر بھاگتی دوڑتی ٹریفک کی وجہ سے اٹھنے والی گردو غبار تازہ آکسیجن کے حصول کے عمل کو تہس نہس کر دیتی ہے۔لہٰذا صبح کی سیر مکمل فوائد کے حصول کے لیے سر سبز وشاداب اور کھلے ہوادار پارکوں میں جانا لازمی ہے۔

December 30, 2018
by PharmaReviews
0 comments

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، صحت کے نام پر کاروبار کرنے والا ادارہ

اقوام متحدہ کا ادارہ صحت عامہ کا نعرہ لگا کر کن مقاصد کے لئے کام کررہاہے، اسے کنٹرول کرنے والے کون ہیں؟ فوٹو: فائل

اقوام متحدہ کا ادارہ صحت عامہ کا نعرہ لگا کر کن مقاصد کے لئے کام کررہاہے، اسے کنٹرول کرنے والے کون ہیں؟ فوٹو: فائل

اقوام متحدہ کے اہم ترین ادارے’ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن ‘(ڈبلیوایچ او) کی طرف سے صحت عامہ کے حوالے سے روزانہ کوئی نہ کوئی خبردار کرنے والی رپورٹ جاری ہوتی ہے، بتایاجاتاہے کہ  فضائی آلودگی کیسے ہماری صحت کو تباہ وبرباد کررہی ہے، ڈبلیوایچ او کو دنیا بھر کے مختلف حصوں میں موجود پناہ گزینوں کی فکر بھی بہت زیادہ ستا رہی ہے۔

یہ ادارہ دنیا والوں کو بتا رہاہے کہ  ہرسال پانچ سال سے کم عمر 6.6 ملین بچے صرف اس لئے جاں بحق ہورہے ہیں کہ وہ ماؤں کا دودھ نہیں پیتے، معمولی قیمت کی ویکسی نیشن اور ادویات استعمال نہیں کرتے، انھیں صاف پانی میسر نہیں اور سینی ٹیشن کی محفوظ سہولت دستیاب نہیں۔ ہرسال15ملین بچے وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں اور ان میں سے 10لاکھ سے زیادہ موت کے گھاٹ اترجاتے ہیں۔ پوری دنیا میں ہر10میں سے تین افراد  امراض قلب میں مبتلا ہوکر جاں سے گزرجاتے ہیں، ہر روز800 خواتین  زچگی کے دوران میں پیش آنے والی پیچیدگیوں کے باعث ہلاک ہوجاتی ہیں، پوری دنیا میں معذوری کے20 بڑے اسباب میں سے ایک  نفسیاتی بیماریاں بھی ہیں۔ یہ اور ایسے بہت سے اعدادوشمار عالمی ادارہ صحت کی صحت عامہ کی بابت فکرمندی کا ظاہر کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ  یہ ادارہ دنیا بھر کے انسانوں کی صحت کی محض فکر کرتا ہے یا انھیں صحت کا شعور بھی فراہم کرتا ہے، انھیں بیماریوں سے دور رہنے میں معاونت فراہم کرتا ہے، ان کا علاج بھی کرتا ہے۔

ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن 1948ء میں اس عزم کے ساتھ قائم ہوئی تھی کہ  دنیا میں ہر ایک کے لئے ، ہرجگہ ایک صحت مندانہ مستقبل کی تعمیر کی جائے گی۔ اس وقت تنظیم کا ہیڈکوارٹر جنیوا، سوئٹزرلینڈ میں موجود ہے، اس کے ملازمین کی تعداد سات ہزارسے زائد ہے، اس کے دنیا میں چھ ریجنل دفاتر ہیں،  پوری دنیا کے ممالک میں تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد دفاتر ہیں۔ اقوام متحدہ کے نظام کے تحت 194ممالک اس تنظیم کے قواعدوضوابط کے پابند ہیں۔ چاہے سگریٹ نوشی کے اثرات ہوں، سوائن فلو کی وبا ہو یا پھر نیوکلئیرتباہی کا معاملہ ہو، یہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن ہی ہے کہ ہم اپنے لوگوں کی صحت کی بحالی کے لئے اسی کی طرف دیکھتے ہیں اور اسی کی نصیحت پر عمل کرتے ہیں۔تاہم سوال کیا اس ادارے پر اعتماد کیا جاسکتاہے؟ اورسوال یہ بھی ہے کہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن یہ ہدایات کیسے تیار کرتی ہے؟ کیا اس کی ہدایات قابل اعتماد ہوسکتی ہیں؟ ان سوالات کے جوابات ہمیں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سٹرکچر اور کام کرنے کے موجودہ مقاصد سے بخوبی آگاہ کریں گے۔

ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے حکام مختلف سائنسی ماہرین پر بھروسہ کرتے ہیں، یہ ماہرین عالمی ادارہ صحت کو  ایسے ممالک اور تنظیمیں فراہم کرتی ہیں جو اس ادارے کو فنڈز فراہم کرتی ہیں۔ ان سائنسی ماہرین میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے مفاد میں فیصلے کرتے ہیں۔ اب ایک طفل مکتب بھی سمجھ سکتاہے کہ بیماریاں پیدا کرنے والی انڈسٹری جب عالمی ادارہ صحت کی فنانسر ہوگی تو صحت کے مسئلے کس اندازمیں حل ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب دنیا بھر سے ایسی آوازیں بلند ہونا شروع ہوچکی ہیں جن سے ظاہر ہوتاہے کہ  ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کی صحت کے عالمی مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت پر زیادہ اعتماد نہیں کیاجاتا۔

اس ادارے پر اعتماد کیوں نہیں کیاجاتا، یہ کہانی بھی جان لیجئے جو پچاس کی دہائی یعنی ادارے کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوتی ہے۔ تب عالمی ڈبلیو ایچ او کے تعلقات تمباکو انڈسٹری کے بڑے کھلاڑیوں سے قائم ہوئے۔ سوئٹزرلینڈ کے سابق وزیرصحت تھامس زیٹنر کا کہناہے :’’تمباکو انڈسٹری والوں نے ادارے قائم کئے اور ایسے سائنسی ماہرین خریدے جو اپنی نمائندگی تو کریں لیکن کہیں پر اپنی شناخت ظاہر نہ کریں۔ ایسے میں کوئی کیسے جان سکتاتھا کہ یہ ادارے دراصل تمباکو انڈسٹری کے لئے کام کررہے ہیں‘‘۔

کس قدر سنگین بات ہے کہ سائنسی ماہرین بیک وقت تمباکوانڈسٹری کے بڑے کھلاڑیوں اور ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے لئے کام کریں۔ اس کی ایک مثال علم سموم(زہروں سے متعلقہ) کے ایک ماہر تھے جو ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے مشیر کے طور پر اُس وقت کام کررہے تھے جب تمباکونوشی کے خلاف عالمی مہم زوروں پر تھی۔

دوسری طرف یہی صاحب فلپ موریس جیسی  ملٹی نیشنل سگریٹ بنانے اور بیچنے والی کمپنی  سے بھی تنخواہ لیتے تھے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب اِن صاحب کے مذکورہ بالا تعلقات لوگوں پر ظاہر ہوگئے  تاہم اس کے باوجود وہ عالمی ادارہ صحت کے مشیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک فرد ایک طرف عالمی ادارہ صحت کے ملازم کی حیثیت سے اسی ادارے کے اغراض ومقاصد کی تکمیل کے لئے کام کرے اور عین اسی وقت ایک دوسرے ادارے سے تنخواہ وصول کرکے انہی مقاصد کے خلاف اپنی خدمات فراہم کرے۔ ایسا ممکن ہی نہیں، وہ زیادہ معاوضہ فراہم کرنے والوں کے لئے اصل کام کرے گا اور دوسرے ادارے کی جڑیں کاٹے گا۔ فلپ موریس کے ملازم کی  صرف ایک مثال نہیں ہے، ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں کہ سائنسی ماہرین نے عالمی ادارہ صحت کے قیام کے اغراض ومقاصد کے برخلاف کام کیا اور اس وقت بھی کررہے ہیں۔

گزشتہ دنوں عرب دنیا  ’الجزیرہ‘ ٹی وی چینل نے اسی موضوع پر ایک ڈاکومنٹری فلم بھی دکھائی تھی جس میں بتایاگیاتھا کہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے سائنسی ماہرین کا ’گلیکسو‘ اور ’نووارٹز‘ جیسی فارماسیٹیکل کمپنیوں سے بھی تعلق نکل آیا، ایسی کمپنیوں کے ساتھ جو سوائن فلو کی ویکسینیشن تیار کرتی ہیں۔  یہ معاملہ اس وقت زیادہ سنگین ہوگیا جب  سن 2009ء میں ڈبلیوایچ او نے  ایک وبا سے خبردار کرنے کے لئے  مبالغہ آرائی پر مبنی مہم چلائی۔ اس مہم کے پہلے تین ماہ کے دوران میں  فرانس کے سب سے بڑے ادویہ ساز ادارے نے منافع کی مد میں  1.95بلین ڈالرز(امریکی) زیادہ کمائے۔

بعدازاں ایسی رپورٹس سامنے آئیں جن سے ظاہر ہوا کہ  سوائن فلوسنگین مسئلہ نہیں تھا جیسا کہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن نے لوگوں کو بتایاتھا۔ جب یہ فلو ظاہر ہواتھا تو پہلے سال کے دوران میں سوائن فلو کے نتیجے میں258 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ تعداد عام فلو سے ہونے والے اموات سے بہت زیادہ نہیں تھی۔ یادرہے کہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن  نے اس’وبا‘ سے خبردار کرنے کے لئے 1.8 بلین ڈالر مختص کیاتھا۔ اس کے نتیجے میں دنیا میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو خوف کا شکار کرکے فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی ویکسین اور ادویات فروخت کی گئیں۔  بعدازاں ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن نے اعتراف کیا کہ اس نے اس وبا کا خطرہ بتانے کے لئے مبالغہ آرائی سے کام لیاتھا۔ اس ادارے نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ ایسی ویکسینیشنز اور ادویات نے لوگوں کو دیگر موذی امراض میں مبتلا کیا، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ نتیجتاً فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی مزید ادویات فروخت ہوں گی اور ان کے وارے نیارے ہوں گے۔

جرمن ویلاسکس  کا کہناہے :’’جب سوائن فلو کی وبا پھوٹی تھی، میں ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے ’ڈیپارٹمنٹ آف پبلک ہیلتھ، انٹلیکچوئل پراپرٹی اینڈ میڈیکیشن‘ کا سیکرٹری جنرل تھا، ہمارے ہاں کوئی بھی خوفزدہ نہیں تھا‘‘۔ مسٹر ویلاسکس آج کل گرین کلائیمیٹ فنڈ کے لئے کام کررہے ہیں۔ان کا کہناہے:’’ میں نے ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں دیکھا جس نے سوائن فلو کی ویکسینیشن لی ہو حتیٰ کہ ڈائریکٹرجنرل نے بھی نہیں۔ جب  صحافیوں نے ڈائریکٹر جنرل سے پوچھا کہ سوائن فلو اس قدر خطرناک ہے تو کیا آپ نے بھی ویکسینیشن کرائی ہے ؟ انھوں نے جواباً کہا : ’’ابھی میرے پاس اس کے لئے وقت نہیں، میں بعد میں ویکسینیشن کراؤں گی‘‘۔

یورپین کونسل میں سابق نمائندے ’ولف گینگ ووڈارگ ‘کہتے ہیں کہ ڈبلیو ایچ او  کے لوگ فنڈنگ کے بدلے میں طے کئے جانے والے معاملات کے باب میں آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ ان کا کہناہے:’’ ڈبلیو ایچ او کے حکام ان معاملات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ وہ سائنسی ماہرین پر انحصار کرتے ہیں جو  اس ادارے کو فنڈنگ کرنے والی تنظیموں  اور ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ان میں سے بہت سے ایسی سفارشات پیش کرتے ہیں جو فارماسیٹیکل انڈسٹری کے مفاد میں ہوتی ہیں‘‘۔ اس کا دوسرا یہ مطلب ہے کہ ادویہ ساز کمپنیوں کے کاروبار کو بڑھانے چڑھانے کے لئے دنیا کے بعض حصوں میں لوگوں کو خوفزدہ کیاجائے اور پھر ادویات بیچی جائیں۔

گزشتہ کئی برسوں سے ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن سمیت اقوام متحدہ کے دیگراداروں  اور  کاروباری کمپنیوں اور تنظیموں کے درمیان تعلقات فروغ پارہے ہیں۔ان میں سے بعض اداروں کے باہمی تعلقات چرنوبل تباہی جیسے سنگین ادوار میں قائم ہوئے۔کہاجاتاہے کہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن  نے جان بوجھ کر  نیوکلیائی دھماکوں کے نتیجے میں متاثرہونے والوں سے متعلق اعدادوشمار کم ظاہر کئے تھے۔

واضح رہے کہ ڈبلیوایچ او انٹرنیشنل  اٹامک انرجی ایجنسی کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ ثانی الذکر ادارہ  ’ایٹمز فار پیس‘ کے نعرے کی بنیاد پر قائم ہواتھا۔ اگرچہ ان دونوں اداروں کے راستے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں، ایک کا مقصد عالمی صحت ہے اور دوسرے کا مقصد اٹامک انرجی کا محفوظ استعمال ہے۔

جس طرح اقوام متحدہ کے بارے میں دنیا میں ایک تاثر عام ہورہاہے کہ وہ دنیا کی بعض حکومتوں یا ملکوں کے مفادات کے لئے کام کرنے والا ادارہ بن کے رہ گیاہے، اسی طرح اس کے ذیلی ادارے جیسے ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن بھی بعض حکومتوں کے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہورہے ہیں۔ اپریل2017ء میں ایک برطانوی جریدے ’برٹش سائنس جرنل‘ نے ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کے ادارے  ’انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر‘ نے اس موذی مرض کے اسباب کاجائزہ لینے کے لئے ریسرچ کا جو انداز اختیار کیا، اس کے سیاسی محرکات تھے۔ ظاہر ہے کہ جو ممالک ان اداروں کو زیادہ فنڈنگ کرتے ہیں، وہ انھیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال بھی کریں گے۔ یادرہے کہ اس وقت ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کو سب سے زیادہ فنڈ امریکا 300ملین ڈالر فراہم کرتاہے، اس کے بعد برطانیہ 195 ملین ڈالرز۔  بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن 300ملین ڈالرز عالمی ادارہ صحت کو فراہم کرتی ہے۔ اس کے بجٹ کا تیسرا حصہ انتظامیہ کی تنخواہوں، مراعات اور دیگراخراجات پر خرچ ہوتاہے۔

آخر میں یہ بھی جان لیں کہ ہماری صحت کے لئے فکر مند ہونے والے اس ادارے کے اہلکار اپنے سیرسپاٹوں پر خوب اخراجات کرتے ہیں، حالانکہ فکرمندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ ادارے کو ملنے والی ہرپائی ایک ایک مریض پر خرچ کرتے ۔ آپ شاید یہ جان کر بہت حیران ہوں گے کہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے اہلکاروں کے مختلف ممالک کے دوروں پر اخراجات زیادہ  لیکن بیماریوں کی روک تھام اور علاج پر اخراجات کم ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس جون میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ڈبلیوایچ او کے اہلکاروں کے دوروں پر سالانہ 200ملین ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ یہ رقم نفسیاتی بیماریوں، ایچ آئی  وی، ایڈز،  تپدق اور ملیریا پر مجموعی ہونے والے اخراجات سے دوگنا زیادہ ہے۔ ادارے کی جنرل سیکرٹری مارگریٹ شان جو نومبر2006ء  سے جون 2017ء تک  اس عہدے پر کام کرتی رہیں،  مغربی افریقہ کے ممالک کے دوران میں ایسے ہوٹل میں قیام پذیر رہیں جہاں ایک رات گزارنے کے 1000ڈالر یعنی ایک لاکھ 39 ہزار 110روپے خرچ آتاہے۔

December 30, 2018
by PharmaReviews
0 comments

’سگریٹ نوشی‘ سے سالانہ ایک لاکھ پاکستانی موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں

عمران خان حکومت ہلاکت خیزی کی راہ میں بند باندھنے کے لئے’گناہ ٹیکس‘ نافذ کرنے میں کامیاب ہوسکے گی؟ فوٹو: فائل

عمران خان حکومت ہلاکت خیزی کی راہ میں بند باندھنے کے لئے’گناہ ٹیکس‘ نافذ کرنے میں کامیاب ہوسکے گی؟ فوٹو: فائل

پاکستان کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک میں ایک لاکھ سے زائد افراد سگریٹ نوشی سے پیدا ہونے والے امراض میں مبتلا ہوکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یعنی ہر روز 298 ہلاکتوں کی ذمہ داری صرف ایک تمباکونوشی پر عائد ہوتی ہے۔

گزشتہ دنوں وفاقی  پارلیمانی سیکرٹری ہیلتھ ڈاکٹر نوشین حامد نے بتایا کہ تمباکو نوشی کے باعث سالانہ ایک لاکھ  پاکستانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اسی لیے وزارت قومی صحت سروسز تمباکو نوشی کے استعمال میں کمی لانے کے لیے طلب اور رسد میں کمی کے لیے اقدامات کررہی ہے۔

پاکستان نے تمباکو نوشی کو کنٹرول کرنے کے فریم ورک کنونشن پر دستخط کررکھے ہیں اور صحت عامہ کی پالیسیوں میں بھی تمباکو نوشی پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔

ایک ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے نوشین حامد نے بتایا کہ تمباکو کی صنعت کی طرف سے نوجوانوں کو سگریٹ نوشی کا عادی بنایا جارہا ہے تاکہ یہ نوجوان سگریٹ نوشی چھوڑنے والوں کی جگہ لے سکیں۔ تمباکو انڈسٹری کا مذکورہ بالا طریقہ واردات بہت پرانا ہے، اقوام متحدہ کا اہم ترین ادارہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن(ڈبلیو ایچ او) 1948ء میں قائم ہوئی اور اس کے فوراً بعد تمباکو انڈسٹری  کے شکنجے میں جکڑی گئی۔

انہوں نے کہا کہ پچاس کی دہائی میں تمباکو انڈسٹری کے بڑے کھلاڑیوں نے عالمی ادارہ صحت میں اپنا اثرورسوخ قائم کرلیا۔ انھوں نے ایسے ادارے قائم کئے جن سے ڈبلیو ایچ او استفادہ کرتاتھا اور خفیہ طریقے سے ایسے ماہرین اس ادارے کو فراہم کئے جو بظاہر ڈبلیو ایچ او کے لئے کام کرتے تھے تاہم اصلاً وہ تمباکوانڈسٹری کے مفادات کے محافظ تھے۔ سوئٹزرلینڈ کے سابق وزیرصحت تھامس زیٹنر نے اسی قسم کے انکشاف کئے تھے۔

کس قدر سنگین بات ہے کہ سائنسی ماہرین تمباکوانڈسٹری کے بڑے کھلاڑیوں اور ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے لئے  بیک وقت کام کریں۔ اس کی ایک مثال علم سموم(زہروں سے متعلقہ علم ) کے ایک ماہر تھے جو ڈبلیوایچ او کے مشیر کے طور پر اُس وقت کام کررہے تھے جب تمباکونوشی کے خلاف عالمی مہم زوروں پر تھی۔

دوسری طرف یہی صاحب فلپ موریس جیسی ملٹی نیشنل سگریٹ بنانے اور بیچنے والی کمپنی  سے بھی تنخواہ لیتے تھے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب اِن صاحب کے مذکورہ بالا تعلقات لوگوں پر ظاہر ببھی ہوگئے، اس کے باوجود وہ عالمی ادارہ صحت کے مشیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں کہ سائنسی ماہرین نے عالمی ادارہ صحت کے قیام کے اغراض ومقاصد کے برخلاف کام کیا۔ جب عالمی ادارہ صحت لوگوں کی صحت کو تحفظ دینے کی آڑ میں بیماریاں پھیلانے والوں کے کاروبار کے فروغ کے لئے مہمات چلائے گی تو آپ اندازہ کریں کہ لوگوں کی صحت کا عالم کیا ہوگا؟

ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ایک ارب سگریٹ نوش موجود ہیں جو روزانہ 18ارب سگریٹ پیتے ہیں۔ اس اعتبار سے ماہرین اسے دنیا کا سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار قراردیتے ہیں۔ پوری دنیا میں موجود سگریٹ نوش حضرات وخواتین  میں سے 80 فیصد لوئراورمڈل کلاس معاشروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ 33ملین افراد تمباکو کے کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں، ان کی بڑی تعداد انتہائی غریب علاقوں اور طبقات سے آتی ہے۔ ان مزدوروں میں چھوٹے بچے بھی شامل ہوتے ہیں جو انتہائی کم معاوضے پر کام کرتے ہیں لیکن کبھی چائلڈلیبر کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کی نظریں ان بچوں پر نہیں پڑتی۔

سگریٹ نوشی سے پیداہونے والی بیماریوں سے متعلق شعور پیدا نہیں ہونے دیا جارہا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ تمباکو پیدا کرنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر چین ہے، وہاں صرف 38فیصد افراد جانتے ہیں کہ سگریٹ نوشی دل کے امراض بھی پیدا کرتی ہے اور صرف 27 فیصد جانتے ہیں کہ سگریٹ نوش بالآخر دل کے دورے کا شکار ہوجاتاہے۔

اسی طرح بنگلہ دیش، بھارت، نیدرلینڈ، روس، تھائی لینڈ اور ویت نام میں صرف 25 فیصد آبادی مذکورہ بالا حقیقت سے بے خبر ہے۔ نیوزی لینڈ میں17 فیصد، فرانس میں 14فیصد، امریکا میں 13فیصد لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ دنیا میں امراض قلب انسانوں کے سب سے بڑے قاتل ہیں، پھیپھڑوں کا کینسر نہیں۔

یہ حقیقت بھی جان لیں کہ تمباکو آدھے سے زائد سگریٹ نوشوں کو ہلاک کردیتاہے۔ پوری دنیا میں ہرسال  60سے70 لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں، ان میں 6لاکھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو سگریٹ نہیں پیتے لیکن سگریٹ نوشی کے اثرات ان کے لئے زہرقاتل ثابت ہوتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اگر سگریٹ نوشی کا رجحان یہی رہا تو 2030ء تک ہلاکتوںکی تعداد 80لاکھ سالانہ تک پہنچ جائے گی۔ ایک فرد جو ایک سگریٹ پھونکتا ہے، وہ اس کی زندگی کے پانچ سے11منٹ کم کردیتاہے۔مجموعی طور پر ایک فرد سگریٹ نوشی کرکے اپنی  زندگی کے 12سال کم کردیتا ہے۔ اور یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ دل کے امراض میں مبتلا ہونے والے 25فیصد افراد  اور پھیپھڑوں کے کینسرزدہ 75فیصد افراد کی ہلاکت کا براہ راست سبب سگریٹ نوشی ہوتاہے۔

یہ خاصی عجیب بات ہے کہ  سگریٹ نوشی کے خلاف تمام تر اقدامات اور مہمات کے باوجود پاکستان میں بھی سگریٹ نوشوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ وزارت صحت کی طرف سے سگریٹ کی ہرڈبیہ پر لکھاہوتاہے کہ  یہ انسانی صحت کے لئے مضر ہے اور یہ منہ کے کینسر کا باعث بنتی ہے۔ اس کے ساتھ  منہ کے کینسر میں مبتلا فرد کی ایک خوفزدہ کرنے والی تصویر بھی شائع ہوتی ہے تاہم اس کے باوجود یہاں لڑکے جوانی کے دور میں داخل ہونے کا اعلان سگریٹ نوشی کے ذریعے کرتے ہیں۔

اب حکومت نے اعلان کیاہے کہ یکم جون 2019ء سے ڈبیہ پر منہ کے کینسر کی تصویر کا سائز بڑھا کر 60فیصد کردیاجائے گا۔ دیگر اقدامات میں تمباکو کی مختلف مصنوعات پر عائد ٹیکسوں میں مزید اضافہ  کی تجاویز بھی زیرغور ہیں۔ یادرہے کہ  ضمنی بجٹ 2018ء  میں سگریٹ کے تیسرے درجہ کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں تقریباً 46فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ایسے اقدامات کے نتیجے میں مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے۔کیا نئی حکومت کے اقدامات موثر ثابت ہوں گے؟

تحریک انصاف کی حکومت نے ’گناہ ٹیکس‘ کی صورت میں ایک نیا قدم اٹھانے کی اعلان بھی کیا ہے۔  یہ تجویز اس تناظر میں بہترین ہے کہ جومصنوعات انسانی صحت میں خرابی پیداکرتی ہیں ، اس خرابی کا علاج بھی انہی کمپنیوں کی ذمہ داری ہوناچاہئے، چنانچہ حکومت نے میٹھے مشروبات پر بھی یہ ٹیکس عائد کیاہے،کیونکہ چینی سے تیار ہونے والے مشروبات بھی انسانی صحت پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں۔

حکومت اس وقت بجٹ میں صحت کے شعبے پر جی ڈی پی کا 0.6 فیصد مختص کرتی ہے۔ سگریٹ نوشی سمیت ایسی تمام مصنوعات جو انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب کرتی ہیں، پر ’ گناہ ٹیکس‘ عائد کرنے کی تجویز خاصی پرانی ہے ، حکومتوںکو ان مضراثرات سے نمٹنے  یعنی صحت عامہ کے لئے ایک بڑی رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔  ’گناہ ٹیکس‘دنیا کے45 ممالک میں وصول کیا جارہاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ  یہ ٹیکس تمام ممالک میں اِسی نام سے وصول کیاجاتا ہے۔

امریکا میں سگریٹ کے ایک پیکٹ پر ڈیڑھ ڈالر وصول کیاجاتاہے، یعنی200 پاکستانی روپے ۔ برطانیہ میں چینی سے تیارشدہ ایک لیٹر مشروب پر 100 پاکستانی روپے کے برابر ٹیکس وصول کیاجاتاہے۔ پاکستان میں ’گناہ ٹیکس‘ کس قدر وصول کیاجائے گا، تاحال فیصلہ نہیں ہوسکا۔ ماہرین صحت کا مطالبہ ہے کہ حکومت مضرصحت مصنوعات پر بھاری بھرکم ٹیکس عائد کرے تاکہ ایک طرف حکومت پر صحت عامہ پر اخراجات کرنے کا بوجھ کم ہو، دوسری طرف عوام الناس پر بھی بوجھ کم پڑے اور پاکستانی ایک صحت مند قوم بن سکیں۔

ماہرین کا کہناہے کہ بھاری بھرکم ٹیکس عائد کرنے کا فائدہ ہوگا کہ مضرصحت مصنوعات کم عمر یا نوجوانوں کی استطاعت سے باہر ہوجائیں گی۔ ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 1500نوجوان یا کم عمر لڑکے سگریٹ نوشی میں مبتلا ہوتے ہیں، حکومت چاہتی ہے کہ اس تعداد میں کمی آئے۔  پاکستان میں صحت عامہ کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے بعض ادارے ایک طویل عرصہ سے مسلسل حکومت پر زور دے رہے تھے کہ وہ ’گناہ ٹیکس‘ عائد کرے۔

صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی سے ماہرین صحت کا ایک وفد ملا جہاں یہ مطالبہ ایک بارپھر پیش کیاگیا، صدرمملکت نے یقین دلایا کہ وہ اسکے لئے ہرممکن کردار ادا کریں گے۔  یہ تجویز مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں بھی پیش کی گئی لیکن اسے منظور نہ کیاگیا۔ پاکستانیوں کو مکمل صحت مند قوم بنانا، شاید یہ ہماری سابقہ حکومتوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں تھا۔

ماہرین کا کہناہے کہ  حکومت گناہ ٹیکس نافذ کرتے ہوئے پوری طرح ہوشیار رہے کہ  سگریٹ تیار کرنے اور فروخت کرنے والے اس ٹیکس کا بوجھ خریداروں پر نہ ڈال سکے۔ ویسے بعض حلقوں کا کہناہے کہ گناہ ٹیکس کا نفاذ اس قدر آسان نہیں، جتنا سمجھاجاتا ہے کیونکہ ملک میں تمباکو انڈسٹری غیرمعمولی طور پر موثر اور طاقتور ہے۔ اب یہ وزیراعظم عمران خان جیسے مضبوط قوت ارادی کے مالک حکمران کا امتحان ہے، آیا وہ اپنی قوم کا تحفظ کرنے اور اسے ایک مکمل صحت مند قوم بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا تمباکوانڈسٹری فتح یاب ہوتی ہے!۔

December 30, 2018
by PharmaReviews
0 comments

پہلی بار ڈرون کے ذریعے دور افتادہ علاقے میں بچے تک ویکسین کی کامیاب ترسیل

سوپ ایئرو نامی ڈرون آسٹریلیا میں تیار کیا گیا ہے جس کے ذریعے دور افتادہ گاؤں تک ویکسین پہنچائی گئی (فوٹو: یونیسیف)

سوپ ایئرو نامی ڈرون آسٹریلیا میں تیار کیا گیا ہے جس کے ذریعے دور افتادہ گاؤں تک ویکسین پہنچائی گئی (فوٹو: یونیسیف)

آسٹریلیا: دور افتادہ اور دشوار گزار جزیرے پر پیدا ہونے والے ویکسین کی سہولت سے محروم بچے تک ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے پہلی بار ویکسین پہنچا دی گئی۔

کمرشل ڈرون کے ذریعے بحرالکاہل میں واقع جزیروں کے مجموعے وانوٹو میں ایک ماہ قبل پیدا ہونے والے بچے جوئے نووائی کو یہ ویکسین پہنچائی گئی جہاں ہر پانچ میں سے ایک بچہ ویکسین سے محروم ہے اور خطرناک امراض کا شکار ہوسکتا ہے۔ یہ دنیا کا پہلا بچہ ہے جس کے لیے ویکسین کی ترسیل میں ڈرون ٹیکنالوجی کی مدد لی گئی۔

کمرشل ڈرون نے 40 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا اور 25 منٹ میں سنگلاخ اور مشکل سے عبور کیے جانے والے پہاڑوں تک پہنچ کر کُک بے خطے  پر ویکسین اتاریں جہاں بجلی تک نہیں ہے اور ہسپتال کا نام بھی کسی نے نہیں سنا۔ یہاں پہنچنے کے لیے پیدل یا چھوٹی کشتیوں تک جانا پڑتا ہے جس میں کئی گھنٹے لگتے ہیں۔

ویکسین ملتے ہی وہاں موجود ایک نیم تربیت یافتہ نرس نے پانچ حاملہ خواتین اور 13 مقامی بچوں کو پولیو، ویکسین، ہیپاٹائٹس بی ، خسرہ اور ایبیولا سے بچاؤ کی ویکسین لگائیں۔

15 نومبر کو پیدا ہونے والے ’جو‘ کو اپنی پیدائش کے ایک روز بعد فوری طور ٹی بی اور ہیپا ٹائٹس بی کی ویکسین تو مل گئیں مگر چند روز کے اندر اسے مزید امراض کے خلاف ویکسین لگانا تھیں جو نرس کی عدم موجودگی کی وجہ سے ممکن نہیں ہوسکا۔

اس کی ماں اپنے بچے کے متعلق پریشان تھی اور اسے ویکسین نہ ملنے پر مضطرب تھی۔ اب ڈرون ویکسین ملنے پر وہ بہت خوش ہے کہ  اسے گھنٹوں کا سفر نہیں کرنا پڑا جبکہ قریبی نرس صرف 15 منٹ کی مسافت پر موجود تھی۔

یہ سارا انتظام اقوامِ متحدہ کے تحت بچوں کی صحت و تعلیم کی ذیلی تنظیم یونیسیف نے کیا تھا۔ ڈرون کو ایک قدرے آباد اور ترقی یافتہ جزیرے ایرو مانگو کے گاؤں سے اڑایا گیا تھا جو وناٹو کے مغرب میں واقع ہے۔

ڈرون نے کئی پہاڑ عبور کیے۔ ڈرون میں ویکسین ٹھنڈی رکھنے کا پورا انتظام تھا اور جب یہ ڈرون اپنی منزل پر پہنچا تو مقامی افراد نے رقص کرکے اس کا استقبال کیا اور لوگوں کی بڑی تعداد نے ڈرون دیکھا۔ ماہرین نے اس پیش رفت کو عالمی صحت کے مسائل حل کرنے میں اہم قدم قرار دیا ہے۔

December 30, 2018
by PharmaReviews
0 comments

کان کے اندربال نما خلیات کی دوبارہ افزائش سے سماعت کی بحالی

امریکی ماہرین نے سماعت میں اہم کردار ادا کرنے والے ریسپٹرز اور خلیات کی دوبارہ افزائش کے کامیاب تجربات کئے ہیں۔ فوٹو: فائل

امریکی ماہرین نے سماعت میں اہم کردار ادا کرنے والے ریسپٹرز اور خلیات کی دوبارہ افزائش کے کامیاب تجربات کئے ہیں۔ فوٹو: فائل

روچیسٹر، منی سوٹا: انسانوں میں عمر کے ساتھ ساتھ سماعت سے محرومی مکمل بہرے پن کی جانب لے جاتی ہے اور اس بیماری کو ختم کرنے کا اب تک کوئی طریقہ دریافت نہیں ہوسکا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ کان کے اندر پائے جانے والے بعض بال نما خلیات کو دوبارہ اگا کر سماعت کو لوٹایا جاسکتا ہے اور بعض جانوروں پر تجربات میں کامیابی بھی ملی ہے۔ سننے کے عمل میں آواز کی لہریں کان کے اندر داخل ہوتی ہیں اور ایک سفر طے کرکے طبلِ گوش (ایئرڈرم) تک پہنچتی ہیں۔  اس سے طبلِ گوش پر ارتعاش پیدا ہوتا ہے جو کان کی درمیانی ہڈی سے گزر کر مزید بڑھتا ہے۔ آخری مرحلے میں اندرونی کان میں بال نما خلیات (کوکلیہ) ان ارتعاشات کو برقی سگنل میں بدلتے ہیں اور اس طرح ہم آواز سنتے ہیں۔

اب بڑھاپے یا تیز آوازوں میں رہتے ہوئے کوکلیہ بالکل تباہ ہوجاتا ہے اور عالمی ادارہ صحت کےمطابق اس وقت دنیا میں 40 کروڑ سے زائد افراد اس کےشکار ہیں جن کی سماعت لوٹائی نہیں جاسکتی۔

یونیورسٹی آف روچیسٹر میڈیکل سینٹر کی ڈاکٹر پیٹریشیا وائٹ نے 2012 میں ایسے ریسپٹرز کا گروہ دریافت کیا جو بعض جانوروں (مثلاً پرندوں اور مچھلیوں) میں سماعت کے اعصاب کی دوبارہ افزائش میں مدد دیتے ہیں۔ انہیں ایپی ڈرمل گروتھ فیکٹر (ای جی ایف) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ خلیات سماعت میں مددگار بالوں کے خلیات دوبارہ بنانے میں مددگار ہوتے ہیں۔ لیکن قدرے پیچیدہ جانداروں میں یہ عمل ممکن نظر نہیں آرہا تھا۔

اب ڈاکٹر پیٹریشیا اور ان کے ساتھیوں نے میساچیوسیٹس ایئر اینڈ آئی انفرمیری کے تعاون سے ممالیوں میں ان ریسپٹرز کو دوبارہ اگانے کے تجربات کئے ہیں۔ ان کے مطابق ای آر بی بی ٹو نامی ایک خاص ریسپٹر کوکلیہ میں سماعت والے خلیات کو دوبارہ پیدا کرتے ہیں ۔ اس کے بعد انہوں نے پورے عمل کے طریقے کو بحال کرنے کے تین اہم طریقے بھی ڈھونڈ نکالے ہیں۔

اس کوشش کے نتیجے میں ماہرین کو دودھ پلانے والے (ممالیہ) جانوروں میں پہلی مرتبہ تمام ضروری بال نما خلیات اگانے میں کامیابی ملی ہے۔ اس کے لیے ماہرین نے خلیاتِ ساق (اسٹیم سیل) کو استعمال کرکے انہیں مخصوص خلیات میں ڈھالا ہے اور سماعت میں ان کا غیرمعمولی مقام ہوتا ہے۔

ڈاکٹر پیٹریشیا وائٹ کے مطابق اس طریقے سے سماعت سے محروم افراد کے لیے امید کی ایک کرن پیدا ہوئی ہے لیکن یہ سماعت کی بحالی ایک پیچیدہ اور صبرآزما طریقہ ہے جس کے لیے پورا نظام سمجھنا ہوگا۔

December 30, 2018
by PharmaReviews
0 comments

ریاض: سعودی عرب کے ماہرین نے انک جیٹ پرنٹر سے کاغذ پر چھاپے جانے والا سینسر تیار کیا ہے جو تھوک کی مدد سے خون کے اندر شکر کی مقدار بتاسکتا ہے۔ اس طرح بار بار انگلی میں نوک چبھو کر ذیابیطس کے اتار چڑھاؤ معلوم کرنے کی ضرورت ختم ہوجائے گی۔

کاغذ پر چھپا یہ کم خرچ سینسر تھوک کے ذریعے خون میں شکر کی مقدار معلوم کرسکتا ہے (فوٹو: کنگ عبداللہ یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی)

کاغذ پر چھپا یہ کم خرچ سینسر تھوک کے ذریعے خون میں شکر کی مقدار معلوم کرسکتا ہے (فوٹو: کنگ عبداللہ یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی)

’ فلیکسیبل الیکٹرونکس‘ نامی جریدے میں شائع رپورٹ کے مطابق کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے حیاتیاتی ماہر ساہیکا عنال، انجینئر خالد سلامہ اور مٹیریل کے ماہر دریا باران نے مشترکہ طور پر یہ اہم شے ایجاد کی ہے۔

سب سے پہلے انہوں نے اِنک جیٹ پرنٹر کی عام روشنائی (انک) میں ایسے پالیمر شامل کیے جن سے بجلی گزرسکتی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے چمکیلے کاغذ کی پٹیوں پر خردبینی برقیرے (الیکٹروڈ) چھاپے۔ اس کے بعد ہر الیکٹروڈ کے اوپر ایک خامرہ (اینزائم) لگایا جس کا نام گلوکوز آکسیڈیز ہے اور اس کے بعد پوری سطح کو نیفیون پالیمر کی جھلی سے ڈھانپ دیا گیا اس طرح انقلابی کاغذی سینسر تیار ہوگیا۔

اب اس پر مریض کا تھوک لگایا گیا تو اس نے گلوکوز آکسیڈیز کے ساتھ ملتے ہی ایک برقی سگنل خارج کیا جو برقیروں تک گیا۔ اسے الگ سے کسی دستی آلے (مثلاً فون) پر بھی وصول کیا جاسکتا ہے۔ اس سگنل کی شدت بتاتی ہے کہ خون میں شکر کی مقدار کس درجے پر ہے۔

ماہرین کے مطابق تھوک میں موجود اسکاربک ایسڈ پالیمر سے تعامل کرتا ہے جس سے خون میں شکر کی مقدار پتا کی جاسکتی ہے تاہم خامرے جلدی ختم ہوجاتے ہیں لیکن اسے ایک پیکٹ میں بند کرکے ایک ماہ تک کارآمد رکھا جاسکتا ہے۔

ماہرین نے کہا ہے کہ یہ سفر جاری رہے گا اور اسے جسمانی مائعات میں دیگر بیماریوں کی شناخت کے قابل بھی بنایا جاسکتا ہے۔

December 30, 2018
by PharmaReviews
0 comments

ہرے پتوں والی سبزیاں جگر کی بہترین محافظ

نائٹریٹ کے باقاعدہ استعمال سے جگر میں چربی کی افزائش بہت حد تک کم ہوسکتی ہے، تحقیق کار (فوٹو: فائل)

نائٹریٹ کے باقاعدہ استعمال سے جگر میں چربی کی افزائش بہت حد تک کم ہوسکتی ہے، تحقیق کار (فوٹو: فائل)

سویڈن: ماہرین کا کہنا ہے کہ ہرے پتوں والی سبزیاں جگر کی بہترین محافظ ہوتی ہیں کیوں کہ ان میں نائٹریٹ بڑی مقدار میں موجود ہوتا ہے جو ایک جانب تو دل کو طاقت دیتا ہے تو دوسری جانب جگر کے ایک عام مگر بسا اوقات جان لیوا مرض فیٹی لیور کو دور رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

پالک، سلاد اور پھول گوبھی جیسی سبزیوں میں نائٹریٹ وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے جس کے بہت سے طبی فوائد ہیں۔ اب معلوم ہوا ہے کہ یہ بالغوں میں جگر کی سب سے عام کیفیت ’نان الکحلک فیٹی لیور ڈیزیز‘ (این اے ایف ایل ڈی) یا ’لیور اسٹیٹوسس‘ کو روکتا ہے۔ اس مرض میں جگر کے اندر چربی جمع ہونا شروع ہوجاتی ہے اور بسا اوقات قبل ازوقت موت سمیت بہت سے مسائل پیدا کرتی ہے۔

پاکستان سمیت دنیا بھر کے بالغ افراد کی بہت بڑی تعداد ’این اے ایف ایل ڈی‘ کی شکار ہے اور صرف امریکا میں ہی 30 سے 40 فیصد افراد اس کیفیت میں مبتلا ہیں۔ اس مرض کا تعلق موٹاپے اور غیرمعمولی میٹابولک کیفیات سے بھی ہوسکتا ہے۔ اب بھی اس کا علاج صرف ورزش اور احتیاط ہی ہے کیوں کہ این اے ایف ایل ڈی کی شدید کیفیات میں جگر فائبروسس اور سورسِس شامل ہیں جو کہ جان لیوا ہیں۔

سویڈن میں واقع کیرولِنسکا انسٹی ٹیوٹ کے سائنس دانوں نے ہرے پتے والی سبزیوں میں موجود نائٹریٹ کے بارے میں تحقیق کے بعد کہا ہے کہ اس کے باقاعدہ استعمال سے جگر میں چربی کی افزائش بہت حد تک کم ہوسکتی ہے۔

اس تحقیق کے لیے ماہرین نے چوہوں کے تین گروہوں پر تجربات کیے، پہلے گروہ کو معمول کے مطابق خوراک دی گئی، دوسرے گروہ کو صرف چکنائیوں سے بھری اور تیسرے گروہ کو چکنائیوں بھری خوراک کے ساتھ ساتھ نائٹریٹ کے سپلیمنٹ بھی دئیے گئے۔

نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ جب زائد چکنائی اور شکر سے بھرپور غذائیں کھانے والے چوہوں کو نائٹریٹ دیا گیا تو ان کے جگر میں چربی کے تمام آثار (مارکر) بڑی حد تک کم ہونے لگے۔ علاوہ ازیں چوہوں میں بلڈ پریشر بہتر رہا اور انسولین سے حساسیت بھی بہتر ہوئی جو ایک بہتر کیفیت ہے۔

اگلے مرحلے پر اس موضوع کی مزید تجربہ گاہی تحقیق کی جائے گی اور انسانوں پر اس کے اثرات معلوم کیے جائیں گے۔

December 30, 2018
by PharmaReviews
0 comments

دل کے مریضوں کیلیے پہنی جانے والی ای سی جی مشین تیار

کیمبرج یونیورسٹی نے ہارٹ ویئر نامی ایک ای سی جی آلہ بنایا ہے جو ہر وقت ای سی جی لے کر ہمیں دل کی کیفیت سے آگاہ کرتا رہتا ہے (فوٹو: بشکریہ ہارٹ ویئر ویب سائٹ)

کیمبرج: دل کے بعض مریضوں کی پل پل بدلتی جسمانی کیفیات اور دل کے دھڑکن پر نظر رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے کیونکہ معمولی غفلت دل کے جان لیوا دورے اور فالج وغیرہ کی وجہ بن سکتی ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی کے ایک پروفیسر اور کیمبرج سائنس پارک کے ماہرینِ قلب نے مشترکہ طور پر’ہارٹ ویئر‘ نامی ایک سینسر بنایا ہے جو دل کی بے ترتیب اور خطرناک دھڑکن کو نوٹ کرتا ہے اور اس کی پشت پر مصنوعی ذہانت موجود ہے جو ایک بہت بڑے ڈیٹا بیس سے وابستہ ہے۔

سینے پر پہنے جانے والے اس ہلکے پھلکے اور کم خرچ آلے کو ڈاکٹر امین شکور، پروفیسر رابرٹو کیپولہ اور جیمز چارلس نے ڈیزائن کیا ہے اور اب اس آلے کو انسانوں پر آزمایا جارہا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ وائرلیس آلہ ہے جس کی تفصیلات فون یا کسی اور آلے پر وصول کی جاتی ہیں۔ دوسری خاص بات یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے یہ مریض میں فالج کے خطرے کی نشاندہی بھی کرسکتا ہے۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں دل کی بے ترتیب دھڑکن اور فالج کے خطرے سے دوچار ہزاروں لاکھوں مریض موجود ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر شکور کے مطابق یہ آلہ فالج اور دل کی بگڑتی ہوئی کیفیت کی فوری نشاندہی کرسکتا ہے۔ 24 گھنٹے کی ای سی جی میں بھی دل کی بے قاعدگی کو ڈھونڈ نکالنا بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہوتا ہے اسی لیے پورے نظام کو مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) سے مدد لینے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

ہارٹ ویئر میں درستی کی شرح 95 فیصد ہے۔ یہ ای سی جی کے علاوہ آکسیجن کی مقدار، نبض، درجہ حرارت اور دیگر جسمانی کیفیات بھی نوٹ کرتا رہتا ہے اور مکمل طور پر واٹر پروف ہے۔

December 30, 2018
by PharmaReviews
0 comments

ماہرین طب کاکہنا ہے کہ چند ایسی غذائیں ہیں جن کے استعمال سے بآسانی بلڈر پریشر کے لیول کو کم کیا جاسکتا ہے۔

پالک کا استعمال: پالک میں میگنیشیم اور پوٹاشیم بڑی مقدار میں موجود ہوتا ہے جو جسم میں بلڈ پریشر کو کم کرکے اسے نارمل رکھتا ہے اس کے علاوہ دیگر سبزیوں کا استعمال بھی بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد گار ہوتا ہے ان میں سلاد، بند گوبھی اور کھیرا شامل ہے۔

سیاہ چاکلیٹ: سیاہ چاکلیٹ کا استعمال بھی بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دن میں 25 سے 30 کلوریز لینے سے بلڈ پریشر کو نارمل کیا جا سکتا ہے اور یہ مقدار سیاہ چاکلیٹ میں پائی جاتی ہے اس لیے چاکلیٹ کھانے کے شوقین عام طور پر بلڈ پریشر کا شکار نہیں ہوتے۔

بالائی سے الگ کیا ہوا دودھ: ایسا دودھ جس سے بالائی نکال لی گئی ہو اپنے اندر بلڈ پریشر کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ایسے دودھ میں کیلشیم، پوٹاشیم اور وٹامن ڈی ایک ساتھ موجود ہوتے ہیں جو بلڈ پریشر کو نارمل رکھ کر جسم کو صحت مند بناتے ہیں۔

ٹماٹر کا استعمال: ٹماٹر اینٹی آکسی ڈنٹ سے بھر پور ہوتا ہے جو بلڈ پریشر کو کم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔

سویا بین: سویا بین میں بھی پوٹاشیم پایا جاتا ہے جو جسم کے بلڈ پریشر کو نارمل رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

بلیو بیریز اور رس بھری : ان میں قدرتی طور پر فلاوونائڈز موجود ہوتا ہے جو ہائپر ٹینشن اور بلڈ پریشر کو کم کرنے میں بہت اہم ہے۔

آلووؤں کا استعمال:  آلو میں پوٹاشیم اور میگنیشم بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے جو بلڈ پریشر کا نارمل رکھنے میں مدد دیتا ہے  جب کہ آلو میں فائبر بھی پایا جاتا ہے جو اچھی صحت کا اہم عنصر ہے۔

چقندر کا جوس: لندن کی کوئین یومیری نیورسٹی کی تحقیق کے مطابق جب ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کو چقندر کا جوس پلایا گیا تو ان کے بلڈ پریشر میں واضح کمی دیکھی گئی۔ ماہرین طب کا کہنا ہے کہ اس میں موجود نائٹریٹس 24 گھنٹے میں بلڈ پپریشر کو کم کردیتا ہے۔

جو کا استعمال:  جو میں ہائی فائبر، کم چکنائی اور کم مقدار میں سوڈیم موجود ہوتا ہے جو بلڈ پریشر کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اگر جو کے دلیہ سے ناشتہ کیا جائے تو جسم کو سارا دن بھر پور توانائی فراہم کرتا ہے۔

کیلے: کیلوں میں پوٹاشیم بڑی مقدار میں موجود ہوتا ہے اس کے مسلسل استعمال سے انسان سارا دن چست اور توانا رہتا ہے جب کہ کیلے بلڈ پریشر کو کم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔