پنجاب حکومت کی جعلی ادویات کے خلاف حالیہ قانونی و اشتہاری مہم اور دوا سازوں اور دوا فروشوں کی ہڑتال و احتجاج کے واقعات کی میڈیا میں خبروں سے عوام کے ذہنوں میں یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ ادویات کی مارکیٹ میں ناقص اور جعلی ادویات کی بھرمار ہے، اور حکومت نے پہلی مرتبہ اس کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے ہیں، جبکہ جعلی ادویات تیار کرنے اور بیچنے والا مافیا اپنے بچاؤ کے لیے سڑکوں پر آ گیا ہے اور ہڑتالوں کے ذریعے حکومت کو بلیک میل کر رہا ہے، چنانچہ ایسے قبیح جرائم کا ہر صورت میں قلع قمع کرنے کے لیے حکومت کو ذرا بھی لچک نہیں دکھانی چاہیے۔ الغرض میڈیا کی پروپیگنڈہ طاقتوں کے باعث اصل حقائق اس طرح مسخ ہو کر رہ جاتے ہیں کہ عوام الناس تو کجا ہمارا دانشور طبقہ بھی اس قدر ژولیدہ فکری کا شکار ہو جاتا ہے، جس کا ایک نمونہ ہمارے انتہائی محترم جناب رعایت اللہ فاروقی صاحب کی مندرجہ ذیل پوسٹ ہے۔
’’دنیا کا سب سے کرپٹ ترین بزنس ادویات سازی و ادویات فروشی کا ہے۔ یہ واحد کاروبار ہے جو اصل بھی اس درجے کا جعلی ہے کہ پوری دنیا ان کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ کسی وقت اس پر تفصیل سے لکھوں گا، آج بس ایک ہی چیز جان لیجیے۔ آپ کے محلے میں بنے میڈیکل سٹور پر دو قسم کی ادویات فروخت ہوتی ہیں۔ ایک اصلی دوسری جعلی، میڈیکل سٹور والا آپ کی شکل دیکھ کر طے کرتا ہے کہ آپ کو اصلی دینی ہے یا جعلی؟ اصل دوائی پر میڈیکل سٹور والے کو 15 فیصد جبکہ جعلی ادویات پر پچاس 50 فیصد نفع ہوتا ہے۔ یہ جعلی ادویات زیادہ کچھ نہیں کرتیں، بس آپ کے گردے فیل کر دیتی ہیں، آپ کے بچے کو دمے کا مریض بنا دیتی ہیں، آپ کی اماں جان کو شوگر اورہیپا ٹا ئٹس وغیرہ سے دو چار کر دیتی ہی،ں اور آپ کے ابا جی کی کھانسی صبح قیامت تک کے لیے ’ٹھیک‘ کر دیتی ہیں۔ وہ جعلی سٹنٹ تو یاد ہوں گے جو لاہور میں یہ مافیا دل کے مریضوں کو فروخت کر رہا تھا۔ شرم آنی چاہیے شہباز شریف کو جو انسانی جانوں سے کھلواڑ کرنے والوں کے خلاف بھاری جرمانوں اور کاروبار سیل کرنے کے قوانین بناتا ہے۔‘‘
ایک تبصرہ: سر جی لائیکس کی بھرمار بتا سکتی ہے کہ عوام اس کھلواڑ سے کس درجہ تنگ ہیں اور بہت سے لائکس بر گرز کے بھی ہیں جو ’شرم آنی چاہیے شہباز شریف کو‘ پڑھ کر لائک ٹھوک رہے ہیں، ویسے یہ ڈرگ مافیا دنیا بھر میں اسی طرح گھناؤنے بزنس میں ملوث ہے اور یہ بزنس اسلحہ اور منشیات کے بزنسوں کو بھی مات دے چکا ہے۔ اللہ ہمیں ہمارے بچوں کو اور تمام مسلمانوں کو محفوظ رکھے۔‘‘
میں خود جناب فاروقی صاحب کے دینی اور سیاسی امور پر علمی تجزیوں کا پرانا مداح ہوں مگر اس معاملے میں فاروقی صاحب کی اس قدر بےبنیاد اور لغو پوسٹ پر جس طرح لوگوں نے آنکھیں بند کر کے داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے، انھیں پڑھ کر اپنے تعلیم یافتہ لوگوں کے ذہنی افلاس پر ماتم کرنے کو جی چاہا مگر اس کے بعد جب حسن نثار اور حفیظ اللہ نیازی جیسے صف اول کے دانشور بھی حقائق کے خلاف نہایت سخت کالم دے ماریں اور ہر شہری اس معاملے میں انتہائی کنفیوژن کاشکار ہو، وہاں غلط فہمیوں کی اس وسیع خلیج کو پاٹنے کے لیے اس حساس مسئلے کو گہرائی میں جا کر سمجھنا اور بیان کرنا ضروری ہوگیا تھا۔