یہ نظم آج سے پچاس سال قبل راندھیر (بھارت) کے ایک حکیم صاحب نے کہی تھی ، جو شاعر بھی تھے)
جہاں تک کام چلتا ہو غذا سے
وہاں تک چاہیےG بچنا دوا سے
اگر خوں کم بنے، بلغم زیادہ
تو کھا گاجر، چنے ، شلغم زیادہ
جگر کے بل پہ ہے انسان جیتا
اگر ضعف جگر ہے کھا پپیتا
جگر میں ہو اگر گرمی کا احساس
مربّہ آملہ کھا یا انناس
اگر ہوتی ہے معدہ میں گرانی
تو پی لی سونف یا ادرک کا پانی
تھکن سے ہوں اگر عضلات ڈھیلے
تو فوراََ دودھ گرما گرم پی لے
جو دکھتا ہو گلا نزلے کے مارے
تو کر نمکین پانی کے غرارے
اگر ہو درد سے دانتوں کے بے کل
تو انگلی سے مسوڑوں پر نمک مَل
جو طاقت میں کمی ہوتی ہو محسوس
تو مصری کی ڈلی ملتان کی چوس
شفا چاہیے اگر کھانسی سے جلدی
تو پی لے دودھ میں تھوڑی سی ہلدی
اگر کانوں میں تکلیف ہووے
تو سرسوں کا تیل پھائے سے نچوڑے
اگر آنکھوں میں پڑ جاتے ہوں جالے
تو دکھنی مرچ گھی کے ساتھ کھا لے
تپ دق سے اگر چاہیے رہائی
بدل پانی کے گّنا چوس بھائی
دمہ میں یہ غذا بے شک ہے اچھی
کھٹائی چھوڑ کھا دریا کی مچھلی
اگر تجھ کو لگے جاڑے میں سردی
تو استعمال کر انڈے کی زردی
جو بد ہضمی میں تو چاہے افاقہ
تو دو اِک وقت کا کر لے تو فاقہ
دعاؤں کا طالب
محمد نورالحسن ندوی