وہ ہادیؐ جو نہ ہو سکتا تھا غیر اللہ سے خائف
چلا اک روز مکے سے نکل کر جانبِ طائف
دیا پیغامِ حق طائف کے رئیسوں کو
دکھائی جنس روحانی کمینوں کو خسیسوں کو
نبیؐ کے ساتھ یہ بدبخت پیش آئے رعونت سے
جو سرکردہ تھا ان میں ،بول اٹھا فرط حقارت سے
اگر اللہ تجھے ایسوں کو نبیؐ پاک کرتا ہے
تو گویا پردہ کعبہ کو خود ہی چاک کرتا ہے
کہا اک دوسرے نے واہ وہ بھی ہے خُدا کوئی
پیمبرؐ ہی نہیں ملتا جسے تیرے سوا کوئی
ظرافت کی ادائے طنز سے اِ ک تیسرا بولا
نہایت بانکپن سے سانپ نے گویا دہن کھولا
اگر مَیں مان لوں تم کر رہے ہو راست گفتاری
توہے تم سے تخاطب میں بھی گستاخی بڑی بھاری
اگر تم جھوٹ کہتے ہو تو ڈرنا چاہئے تم سے
مُجھے پھر بات بھی کوئی نہ کرنا چاہیے تم سے
یہ طعنِ سوقیانہ سُن کے بھی ہادی نہ گھبرایا
اُٹھا اور اُٹھ کے اطمینان و آزاری سے فرمایا
کہ حق پر دل نہیں جمتا تو اچھا خیر جانے دو!
یہ پیغامِ ِ ہدایت شہر والوں کو سنانے دو!
یہ کہہ کر شہر کی جانب چلا اسلام کا ہادی
سُنایا قیدیانِ لات کو پیغامِ آزادی
مگر بھڑکا دیا لوگوں کو اِن تینوں شریروں نے
دکھائی شیطنت شیطان کے سچّے مشیروں نے
پتّھروں کی بارش
بڑھے انبوہ در انبوہ پتھر لے دیوانے
لگے مینہ پتھروں کا رحمتؐ عالم پہ برسانے
وہ ابرِ لطف جس کے سائے کو گلشن ترستے تھے
یہاں طائف میں اس کے جسم پر پتھر برستے تھے
وہ بازو جو غریبوں کا سہارا دیتے رہتے تھے
پیا پے آنے والے پتّھروں کی چوٹ سہتے تھے
وہ سینہ جس کے اندر نورِ حق مستور رہتا تھا
وہی اب شقّ ہوا جاتا تھا اس سے خون بہتا تھا
فرشتے جن پہ آ آ کر جبینِ شوق رکھتے تھے
وہ پائے نازنیں زخموں کی لذت آج چکھتے تھے
جگہ دیتے تھے جن کو حاملانِ عرش آنکھوں پر
وہ نَعلین مبارک خاک و خوں سے بھر گئیں یکسر
بشر کی عیب پوشی کے لیے جس کو اتارا تھا
بشر کی چیرہ دستی سے وہ دامن پارا پارا تھا
زمیں کا سینہ شق تھا اور فلک کا رنگِ رخ فق تھا
کہ ساری عمر کا حاصل شکارِ جورِ ناحق تھا
حضورؐ اس جور سے چور ہو کر بیٹھ جاتے تھے
شقی آتے تھے بازو تھام کر اوپر اٹھاتے تھے
اسی ’’مہماں نوازی‘‘ کا نمونہ پھر دکھاتے تھے
خدائے قاہر و قہّار کا صبر آزماتے تھے
یہ جسمانی عقوبت اس پہ طرہ رنجِ ِ رُوحانی
خدا کا مضحکہ کرتے تھے یہ بیداد کے بانی
کوئی کہتا تھا میں ایسے خدا سے ڈر نہیں سکتا!
کہ جو اپنے پیمبرؐ کی حفاظت کر نہیں سکتا!!
غرض یہ بانیانِ شر یہ فرزندانِ تاریکی
نبیؐ پر مشق کرتے جا رہے تھے سنگباری کی
مگر اس رنگ میں جب تک زباں دیتی رہی یارا
دعائے خیر ہی کرتا رہا اللّہ کا پیارا
بالآخر جان کر بے جان ،ان لوگوں نے منہ موڑا
لہُو میں اس وُجودِ پاک کو لتھڑا ہوا چھوڑا
آپؐ سے بد دعا کی خواہش اور رحمت للعالمینؐ کا جواب
غلامِ با وفا زید ابنِ حارث ڈھونڈتا آیا
متاعِ نور کو طائف سے کندھوں پر اُٹھا لایا
حدِ نخلہ میں آ پہنچا بحالِ خستہ و غمگیں
وہاں چشمے پہ لا کر زخم دھوئے پٹیاں باندھیں
کہا سرکار ان لوگوں کے حق میں بد دعا کیجیے !
شکایت اِ س جفا و جور کی پیشِ خدا کیجے !
زمیں کو حکم دیجیے ان لعینوں کو ہڑپ کر لے
اسی کا بوجھ ہیں یہ لوگ ان کو پیٹ میں بھر لے
فلک کو حکم دیجیے پھٹ پڑے اِ ن کینہ کاروں پر
بجائے آب،برسے آگ طائف کی پہاڑوں پر
جنابِ رحمة للعالمینؐ نے ہنس کے فرمایا
کہ مَیں اس دہر میں قہر و غضب بن کر نہیں آیا
اگر کچھ لوگ آج اسلام پر ایماں نہیں لاتے !
خدائے پاک کے دامانِ وحدت میں نہیں آتے
مگر نسلیں ضرور ان کی اُسے پہچان جائیں گی
درِ ِ توحید پر اِک روز آ کر سر جھکائیں گی!
میں ان کے حق میں کیوں قہرِ الٰہی کی دعا مانگوں
بشر ہیں بے خبر ہیں کیوں تباہی کی دعا مانگوں
پتّھر مارنے والوں کے لئے آنحضرتؐ کی دعائے خیر
یہ فرما کر نبیؐ نے ہاتھ اُٹھا کر اک دُعا مانگی
خُدا کا فضل مانگا خوئے تسلیم و رضا مانگی
دعا مانگی الٰہی قوم کو چشمِ بصیرت دے
الٰہی رحم کر ان پر انھیں نورِ ِ ہدایت دے
جہالت ہی نے رکھا ہے صداقت کے خلاف ان کو
بچارے بے خبر انجان ہیں کر دے معاف ان کو
فراخی ہمّتوں کو،روشنی دے ان کے سینوں کو
کنارے پر لگا دے ڈُوبنے والے سفینوں کو
الٰہی فضل کر کہسار طائف کے مکینوں پر
الٰہی پھول برسا پتھروں والی زمینوں پر
ہادی اسلام کا سفر طائف
February 21, 2015 | 0 comments